حضرت امام علی نقی عليه السلام



قضاوقدرکے بارے میں تقریباتمام فرقے جادہ اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں، اس کی وضاحت میں کوئی جبرکاقائل نظر آتاہے کوئی مطلقا تفویض پرایمان رکھتا ہوادکھائی دیتاہے ہمارے امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے آباؤاجدادکی طرح قضاوقدرکی وضاحت ان لفظوں میں فرمائی ہے ”لاجبرولاتفویض بل امربین امرین“ نہ انسان بالکل مجبورہے نہ بالکل آزادہے بلکہ دونوں حالتوں کے درمیان ہے (معہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۳۴) ۔

میں حضرت کا مطلب یہ سمجھتاہوں کہ انسان اسباب واعمال میں بالکل آزادہے اورنتیجہ کی برآمدگی میں خداکامحتاج ہے۔

علماء امامیہ کی ذمہ داریوں کے متعلق امام علی نقی علیہ السلام کاارشاد

          حضرت امام علی نقی علیہ السلام Ù†Û’ ارشادفرمایاہے کہ ہمارے علماء ،غیبت قائم آل محمدکے زمانے میں محافظ دین اوررہبرعلم ویقین ہوں Ú¯Û’ ان Ú©ÛŒ مثال شیعوں Ú©Û’ لیے بالکل ویسی ہی ہوگی جیسی کشتی Ú©Û’ لیے ناخداکی ہوتی ہے وہ ہمارے ضیعفوں Ú©Û’ دلوں کوتسلی دیں Ú¯Û’ وہ افضل ناس اورقائدملت ہوں Ú¯Û’ (معہ ساکبہ جلد Û³ ص Û±Û³Û·) Û”

حضرت امام علی نقی اورعبدالرحمن مصری کاذہنی انقلاب

          علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ ایک دن متوکل Ù†Û’ برسردربارامام علی نقی کوقتل کردینے کا فیصلہ کرکے آپ کودربارمیں طلب کیا آپ سواری پرتشریف لائے عبدالرحمن مصری کابیان ہے کہ میں سامرہ گیاہواتھا اورمتوکل Ú©Û’ دربارکایہ حال سناکہ ایک علوی Ú©Û’ قتل کاحکم دیاگیاہے تومیں دروازے پراس انتظارمیں کھڑاہوگیا کہ دیکھوں وہ کون شخص ہے جس Ú©Û’ قتل Ú©Û’ انتظامات ہورہے ہیں اتنے میں دیکھاکہ امام علی نقی علیہ السلام تشریف لارہے ہیں مجھے کسی Ù†Û’ بتایاکہ اسی علوی Ú©Û’ قتل کابندوبست ہواہے میری نظرجونہی ان Ú©Û’ چہرہ پرپڑی میرے دل میں ان Ú©ÛŒ محبت سرایت کرگئی اورمیں دعا کرنے لگا خدایامتوکل Ú©Û’ شرسے اس شریف علوی کوبچانا میں دل میں دعاکرہی رہاتھا کہ آپ نزدیک آپہنچے اورمجھ سے بلاجانے پہچانے فرمایاکہ اے عبدالرحمن تمہاری دعاقبول ہوگئی ہے اورمیں انشاء اللہ محفوظ رہوں گا چنانچہ دربارمیں آپ پرکوئی ہاتھ نہ اٹھاسکا اورآپ محفوظ رہے پھرآپ Ù†Û’ مجھے دعادی اورمیں مالامال ہوگیا اورصاحب اولادہوگیا عبدالرحمن کہتاہے کہ میں اسی وقت آپ Ú©ÛŒ امامت کاقائل ہوکرشیعہ ہوگیا (کشف الغمہ ص Û±Û²Û³ ØŒ دمعہ ساکبہ جلد Û³ ص Û±Û²Ûµ) Û”

حضرت امام علی نقی علیہ السلام اوربرکتہ السباع

          علماء کابیان ہے کہ ایک دن متوکل Ú©Û’ دربارمیں ایک عورت جوان اورخوبصورت آئی اوراس Ù†Û’ آکرکہا کہ میں زینب بنت علی وفاطمہ ہوں متوکل Ù†Û’ کہاکہ تو جوان ہے اورزینب کوپیداہوئے اوروفات پائے عرصہ گذرگیا اگرتجھے زینب تسلیم کرلیاجائے تویہ کیسے ماناجائے، کہ زینب اتنی عمرتک جوان رہ سکتی ہےں اس Ù†Û’ کہاکہ مجھے رسول خدانے یہ دعادی تھی کہ میں ہرچالیس اورپچاس سال Ú©Û’ بعد جوان ہوجاؤں اسی لیے میں جوان ہوں متوکل Ù†Û’ علماء دربارکوجمع کرکے ان Ú©Û’ سامنے اس مسئلہ کوپیش کیاسب Ù†Û’ کہایہ جھوٹی ہے زینب Ú©Û’ انتقال کوعرصہ ہوگیا ہے متوکل Ù†Û’ کہاکوئی ایسی دلیل دو کہ میں اسے جھٹلاسکوں سب Ù†Û’ اپنے عجزکاحوالہ دیا۔

           ÙØªØ­ ابن خاقان وزیرمتوکل Ù†Û’ کہاکہ اس مسئلہ کو”ابن الرضا“ علی نقی Ú©Û’ سواکوئی حل نہیں کرسکتا لہذاانہیں بلایاجائے متوکل Ù†Û’ حضرت کوزحمت تشریف آوری دی جب آپ دربارمیں پہنچے متوکل Ù†Û’ صورت مسئلہ پیش Ú©ÛŒ امام Ù†Û’ فرمایا جھوٹی ہے، متوکل Ù†Û’ کہاکوئی ایسی دلیل دیجئیے کہ میں اسے جھوٹی ثابت کرسکوں ØŒ آپ Ù†Û’ فرمایا میرے جدنامدارکاارشادہے کہ ”حرم لحوم اولادی علی السباع“ درندوں پرمیری اولادکاگوشت حرام ہے اے بادشاہ تواس عورت Ú©Ùˆ درندوں میں ڈال دے ،اگریہ سچی ہوگی اس کازینب ہوناتودرکنار اگریہ سیدہ بھی ہوگی توجانوراسے نہ چھیڑیں Ú¯Û’ اوراگرسادات سے بھی بے بہرہ اورخالی ہوگی تودرندے اسے پھاڑکھائیںگے ابھی یہ گفتگوجاری ہی تھی کہ دربارمیں اشارہ بازی ہونے Ù„Ú¯ÛŒ اوردشمنوں Ù†Û’ مل جل کرمتوکل سے کہا کہ اس کاامتحان امام علی نقی ہی Ú©Û’ ذریعہ سے کیوں نہ لیاجائے اوردیکھاجائے کہ آیا درندے سیدوں کوکھاتے ہیں یانہیں Û”

          مطلب یہ تھا کہ اگرانہیں جانوروں Ù†Û’ پھاڑکھایا تومتوکل کامنشاء پوراہوجائے گا اوراگریہ بچ گئے تومتوکل Ú©ÛŒ وہ الجھن دورہوجائے Ú¯ÛŒ جوزینب کذاب Ù†Û’ ڈآل رکھی ہے غرض Ú©ÛŒ متوکل Ù†Û’ امام علیہ السلام سے کہا ”اے ابن الرضا“ کیااچھاہوتا کہ آپ خودبرکتہ السباع میں جاکر اسے ثابت کردیجئے کہ آل رسول کاگوشت درندوں پرحرام ہے امام علیہ السلام تیارہوگئے متوکل Ù†Û’ اپنے بنائے ہوئے برکت السباع شیرخانہ میں آپ کوڈلواکرپھاٹک بندکروادیا، اورخود مکان Ú©Û’ بالاخانہ پرچلاگیا تاکہ وہاں سے امام Ú©Û’ حالات کامطالعہ کرے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next