پیغمبر اکرم(ص)کے سامنے (خلافت کے سلسله میں) تین راستے



ہجرت کے چوتھے سال غزوہ ”بنی النضیر“ میں ابن ام مکتوم کو اور غزوہ ”بدر سوم“ میں عبد اللہ بن رواحہ کو اپنا جانشین قرار دیا۔

ہجرت کے پانچویں سال غزوہٴ ”ذات الرقاع“ میں عثمان بن عفان کو اور غزوہٴ ”دومة الجندل“ نیز ”خندق“ میں ابن ام مکتوم کو اور غزوہٴ ”بنی المصطلق“ میں زید بن حارثہ کو اپنی جگہ معین فرمایا۔

ہجرت کے چھٹے سال غزوہٴ ”بنی لحیان“ ، غزوہٴ ”ذی قَرَد“ اور غزوہٴ ”حدیبیہ“ میں ابن ام مکتوم کو اپنا جانشین قرار دیا۔

ہجرت کے ساتویں سال میں غزوہٴ ”خیبر“، غزوہٴ ”عمرة القضا“ میں سباع بن عُر فطہ“ کو اور ہجرت کے آٹھویں سال جنگ ”تبوک“ کے موقع پر مدینہ میں حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کو اپنا جانشین قرار دیا[5] [6]

قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)چند روز کے لئے مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے تھے تو مدینہ کو اپنے جانشین سے خالی نھیں چھوڑتے تھے، تو کیا کوئی تصور کرسکتا ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنے اس آخری سفر کے لئے کہ جس سے واپس نھیں آنا ھے کسی کو اپنا جانشین معین نھیں کریں گے اور یہ کام لوگوں کے ذمہ چھوڑ دیں گے؟

Û³Û”  یہ احتمال پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… Ú©Û’ خلاف Ú¾Û’ØŒ کیونکہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ù†Û’ مسلمانوں سے فرمایا Ú¾Û’:

”من اصبح و لم یہتم بامور المسلمین فلیس منھم“[7]

”جو شخص صبح اٹھے لیکن مسلمانوں کی فکر نہ کرے تو ایسا شخص مسلمان نھیں ھے۔“

کیا اس صورت حال میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو مسلمانوں کے درخشاں مستقبل کی فکر نھیں تھی؟

۴۔ یہ احتمال، خلفاء کی سیرت کے بھی برخلاف ھے؛ کیونکہ ھر خلیفہ مسلمانوں کے مستقبل کے لئے فکر مند تھا، اور اس نے اپناجانشین معین کیا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next