پیغمبر اکرم(ص)کے سامنے (خلافت کے سلسله میں) تین راستے



چنانچہ طبری کہتے ھیں: ابوبکر نے اپنے آخری وقت خالی حجرے میں عثمان کو بلاکر کھا: جو میں کہتا ھوں وہ لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ عہد و پیمان ابوبکر بن قحافہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے ھے، یہ کہتے ھی بے ھوش ھوگئے، جناب عثمان نے اس فکر سے کہ کھیں ابوبکر بغیر جانشین معین کئے اس دنیا سے چلے جائیں، وصیت میں عمر بن خطاب کا نام لکھ کر آگے لکھنا شروع کردیا، تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکر کو ھوش آگیا اور عثمان کی لکھی ھوی تحریر کی تصدیق کی، اس پر اپنی مھر لگادی، اور اپنے غلام کو دیا کہ اس کو عمر بن خطاب تک پھنچادے، عمر نے بھی خط کو لیا اور اس کو لے کر مسجد میں گئے اور کھا: اے لوگو! خلیفہ رسول خدا ابوبکر کا یہ خط ھے جس میں تمھارے لئے کچھ نصیحتیں لکھیں ھیں۔“[8]

اس واقعہ سے ھم دو باتوں کا نتیجہ حاصل کرتے ھیں ایک تو یہ کہ ابوبکر اور عثمان دونوں امت اسلامیہ کی فکر میں تھے، اور ابوبکر نے اپنے لئے جانشین معین کیا ھے جس کی تائید حضرت عمر نے بھی کی ھے۔

دوسرے یہ کہ حضرت عمر کو جاہ و مقام کی محبت نے اس چیز پر مجبور کردیا تھا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وصیت کا مقابلہ کریں اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف ہذیان کی نسبت دیں، لیکن حالت احتضار میں ابوبکر کی وصیت کو قبول کرلیا، اور ان کی طرف ہذیان کی نسبت نہ دی؟!

اسی طرح جب حضرت عمر نے یہ محسوس کیا کہ ان کی موت آنے والی ھے، اپنے بیٹے عبد اللہ کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے حجرے میں دفن ھونے کی اجازت لینے کے لئے جناب عائشہ کے پاس بھیجا، جناب عائشہ نے درخواست کو قبول کرتے ھوئے عمر کے لئے یہ پیغام بھیجا: کھیں ایسا نہ ھو کہ امت محمدی کو بغیر چرواھے کی گوسفندوں کی طرح چھوڑ کر چلے جائیں اور ان کے لئے جانشین معین کئے بغیر ھی اس دنیا سے چلے جائیں [9]

اس واقعہ سے بھی یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ عائشہ اور عمر بھی امت اسلامیہ کے مستقبل اور امت کے لئے جانشین معین کرنے کی فکر میں تھے۔

معاویہ بھی اپنے بیٹے یزید کی بیعت لینے کے لئے مدینہ آیا، اور اس نے چند اصحاب منجملہ عبد اللہ بن عمر سے ملاقات کے بعد کھا: میں امت محمدی کو بغیر چرواھے کی گوسفندوں کی طرح چھوڑنے سے نا خوش ھوں؛ لہٰذا اپنے بیٹے یزید کو جانشین بنانے کی فکر میں ھوں[10]

قارئین کرام! ان تمام واقعات کے پیش نظر یہ کیسے ممکن ھے کہ سب تو امت کی فکر میں رھیں، لیکن پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو امت کے لئے جانشین کی فکر نہ ھو؟!

ÛµÛ”  یہ مذکورہ احتمال انبیاء علیھم السلام Ú©ÛŒ سیرت Ú©Û’ بھی خلاف Ú¾Û’ØŒ کیونکہ قرآن مجید پر سرسری نظر سے Ú¾ÛŒ یہ نتیجہ حاصل ھوتا Ú¾Û’ کہ انبیاء الٰھی Ù†Û’ اپنے بعد Ú©Û’ لئے جانشین معین کیا Ú¾Û’ØŒ لہٰذا یقینی طور پر پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)بھی اس خصوصیت سے الگ نھیں ھیں۔

اسی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں اپنا وزیر معین کرنے کی درخواست کی، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

<وَاجْعَلْ لِی وَزِیرًا مِنْ اٴَہْلِی #ہَارُونَ اٴَخِی >[11]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next