پیغمبر اکرم(ص)کے سامنے (خلافت کے سلسله میں) تین راستے



Û±Û”  اگر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)خلافت Ú©Û’ لئے اس طریقہ کار Ú©Ùˆ انتخاب کرتے، تو بھی آنحضرت   کواس Ú©ÛŒ وضاحت کرنا چاہئے تھی اور انتخاب ھونے والے افراد اور انتخاب کرنے والوں Ú©Û’ شرائط بیان کرنا چاہئے تھا،جب کہ Ú¾Ù… دیکھتے ھیں کہ ایسا نھیں ھوا، لہٰذا اگر خلافت کا مسئلہ شوریٰ Ú©Û’ حوالہ ھونا تھا تو پھر اس Ú©Ùˆ مکرر اور واضح طور پر بیان کرنا چاہئے تھا۔

۲۔ نہ صرف یہ کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے شوریٰ کے نظام کو بیان نہ کیا ، بلکہ ھرگز لوگوں میں اس طرح کے نظام کی صلاحیت نھیں پائی جاتی تھی، بکیونکہ یہ وھی لوگ تھے جنھوں نے ”حجر الاسود“ کو نصب کرنے کے لئے جھگڑا کھڑا کردیا، ان میں سے ھر قبیلہ حجر الاسود کو نصب کرنے کا شرف حاصل کرنا چاہتا تھا، اور یہ نزاع جنگ میں تبدیل ھونے والی تھی، چنانچہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے صرف اپنی تدبیر سے اس جھگڑے کو ختم کیا اور آپ نے ایک چادر میں حجر الاسود کو رکھ کر تمام قبیلوں کو دعوت دی کہ اپنا اپنا نمائندہ بھیج دیں تاکہ وہ حجر الاسود کو نصب کرنے میں شریک ھوجائے۔

غزوہٴ ”بنی المصطلق“ میں انصار و مھاجرین کے دو لوگوں میں جھگڑا ھونے لگا اور ان میں ھر شخص نے اپنی قوم کو مدد کے لئے پکارا، قریب تھا کہ خانہ جنگی شروع ھوجائے، اور دشمن مسلمانوں پر غالب ھوجائے، لیکن اس موقع پر بھی پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس فتنہ کی آگ کو خاموش کیا اور دونوں کو جاھلیت کی باتوں سے ڈرایا۔

یہ وھی لوگ ھیں جنھوں نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد خلافت کے مسئلہ میں ایسا اختلاف کیا اور چند انصار و مھاجرین نے سقیفہ میں بے بنیاد دعووں کے ذریعہ حق خلافت کو غصب کرلیا، جس کے آخر میں صحابی رسول (سعد بن عبادہ) کو ھاتھوں اور لاتوں سے بہت مارا گیا اور مھاجرین نے حکومت و خلافت کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔

Û³Û”  یہ بات Ú©Ú¾ÛŒ جاچکی Ú¾Û’ کہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©ÛŒ وحی حاصل کرکے اس Ú©ÛŒ تبلیغ Ú©Û’ علاوہ دیگر ذمہ داریاں بھی تھیں، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©Û’ بعد مسلمان کسی ایسی ذات Ú©Û’ ضرورتمند تھے جو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©ÛŒ رحلت سے پیدا ھونے والی Ú©Ù…ÛŒ Ú©Ùˆ پورا کرسکے، اور ایسی ذات سوائے علی اور اھل بیت علیھم السلام Ú©Û’ کوئی اور نھیں تھی۔

لہٰذا جب حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ آپ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے کس طرح سب سے زیادہ حدیث نقل کرتے ھیں؟ تو آپ نے فرمایا:

”لاٴنی کنت اذا ساٴلتہ انباٴنی و اذا سکتّ ابتداٴنی“[19]

”کیونکہ میں جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے سوال کرتا تھا تو آپ جواب دیتے تھے، اور جب میں خاموش ھوجاتا تھا آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)خود حدیث بیان کرنا شروع کردیتے تھے۔“

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے بارھا یہ حدیث بیان فرمائی ھے:

”انا دار الحکمة و علیّ بابھا“[20]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next