فلسطینی انتفاضہ(تحریک)، انقلاب اسلامی ایران کا نتیجہ



 Ù¡Ù©Ù¨Ù Ø¦ Ú©ÛŒ دہائی کا اواخر ملّت فلسطین Ú©Û’ فکری اور مبارزاتی تغیّر وتحوُّل کا دوران ہے Û” کیونکہ ایک طرف تو لوگوں Ú©Û’ قیام Ù†Û’ پورے مقبوضہ فلسطین Ú©ÛŒ سرزمین Ú©Ùˆ گھیر لیا تھا اورمسلحانہ مقابلے مقبوضہ سرزمین Ú©Û’ اندر تک Ø¢Ú¯Û’ تھے اور دوسری طرف سے تنظیم آزادی بخش فلسطین اور اس Ú©Û’ ہمنوا دوسرے گروہوں Ù†Û’ اپنے مسلحانہ مبارزوں Ú©Û’ راستے Ú©Ùˆ مقبوضہ سرزمین میں حکومت بنانے Ú©ÛŒ غرض سے سیاسی مذاکرات میں تبدیل کردیا تھالیکن مقبوضہ سرزمینوں Ú©ÛŒ جدید نسل Ú©Û’ مبارزین Ù†Û’ کہ جو چار دہائیوں سے سوشیلیزم، نیشالیزم اور مارکیسیزم Ú©Û’ تفکرات واندیشوں Ú©ÛŒ آزمائش کا ماحصل تھے، کامیابی Ú©Ùˆ فقط اسلام Ú©Û’ دامن سے متمسک رہنے میں دیکھ لیا تھا، اسی وجہ سے وہ اس راہ میں اسلامی نعرے لگاتے تھے Û” جہاد اسلامی گروہ کا ترجمان ١٣٦٧ھ Ø´ میں امام خمینی سے ملاقات Ú©Û’ بعد اس طرح کہتا ہے:

ہماری ملّت نے سالہا سال بعد قوم پرستی اور الحاد کے نعروں کو ایک طرف پھینک دیا ہے، ان نعروں کو جنھیں استعمار نے رواج دیا تھا ان کی جگہ اسلامی نعروں نے لے لی ہے، ہماری ملّت نے سمجھ لیا ہے کہ ان کی راہ، جہاد کی راہ اور مبارزہ کی راہ ہے، یہ وہی راہ ہے جس کو پیغمبر اکرمۖ اور صدر اسلام کے بزرگ مومنین نے طے کیا تھا(١٠)

بیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائیوں میں فلسطینی عوام کی اسلامی شعائر کی پائبندی ، مساجد اور نماز جمعہ وجماعت کی طرف زیادہ وجہ ہوئی ہے ۔

رسالوں اور اسلامی نشریات جیسے'' الثورة الاسلامیہ، الحقیقہ، طلیعة الاسلامیہ، صوت الجماعة الاسلامیہ'' کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے، عورتوں میں پردہ کا چلن زیادہ ہواہے اور شراب کی دوکانوں اور فحشاء وفساد کے اڈّوں پر حملے کئے جانے لگے ہیں اور جو نعرے لگائے جاتے ہیں معمولاً وہ اسلام کے متن سے ماخوذ ہوتے ہیں، جہاد اسلامی گروہ کا ترجمان انتفاضہ کے نعر وں کو اس طرح بیان کرتا ہے ۔

وہ لوگ بلند آواز سے نعرہ لگاتے ہیں ''لا الٰہ الّا اﷲ'' ØŒ ''اﷲ اکبر''ØŒ  ''جیت، اسلام Ú©ÛŒ ہے''

٢۔ مبارزوں اور مقابلوں میں مسجدوں کا کردار

بیسویں صدی کے آخر میں فلسطینی قوم کے قیام (انتفاضہ) کی مہم خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت مسجدوں میں مبارزوں کا پروگرام ترتیب دینا اور تحریک کو اس مقدس مکان سے شروع کرنا ہے، لوگوں کے مختلف طبقے مسجدوں میں اجتماع کرتے جس سے وہ سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی وغیرہ موضوعات سے آگاہ ہوتے ہیں، یہ لوگ اپنی تقدیر اور اپنے وظائف اور دینی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں بہت حسّاس ہیں اور ان کو اسلامی فکر اور دینی اندیشہ، مبارزہ کی طرف اُکساتا ہے ۔

عوام میں اسلام گرائی اور اسلامی تحریک کے حونصلے کی افزائش کے ساتھ مقبوضہ فلسطین میں مسجدوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، آخری ٣٥ سالوں میں اوسطاً ہر سال دریائے اُردن کے مغربی کنارے میں ٢٠مسجدیں تعمیر ہوئی اور ان کی تعداد چارسو سے بڑھ سات سو ہوگئی ہے، ایسے ہی غزہ کی پٹی میں آخری دو سالوں کے اندر مسجدوںکی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے ۔ محلّے کی مسجد روزانہ کے سیاسی مسائل کی بحث وگفتگو کی جگہ بن گئی ہے، قابضین کے خلاف مظاہروں کا نقطہ آغاز مسجدیں ہی ہوتی ہیں، کچھ اجتماعی فعّالیتیں بھی جیسے غریب اور فقیر لوگوں کی کمک، بچوں کے مکتب کی تاسیس، روزگاری کے ادارے کی ترتیب مسجدوںسے ہی انجام پاتی ہے(١١)

دنیا کی تمام سیاسی خبررساں ایجنسیوں کے اعتراف کے مطابق، انتفاضہ مسجد سے شروع ہوا اور اس نے ہر گھر کو مسجد بنادیا، اس طرح مسجد الاقصیٰ جوانوں کی مقاومت کے مرکز میں تبدیل ہوگئی اور گلدستوں اور مناروں سے ''اﷲاکبر'' کی دلنشین اور دشمن شکن آواز نے قابضوں کو وحشت میں ڈال دیا ہے(١٢) سن ٢٠٠٠ء کے آخری مہینوں میں انتفاضہ کا دوسرا مرحلہ جواب تک چل رہا ہے اور ''انتفاضة الاقصیٰ'' سے مشہور ہے مسجد اقصیٰ سے شروع ہوا اور اریل شارون کی بے عزّتی کا سبب ہوا ۔

فلسطینی عوام کے قیام (انتفاضہ) میں مسجدوں کے رول کو جناب ''شیخ محمد حسین'' مسجد اقصیٰ کے امام جماعت، ایک انٹریو کے درمیان اس طرح بیان کرتے ہیں:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next