اسلامی سیاست کافلسفہ



۳۔۱۔ اسلامی فلسفہ کی سیاست سے مراد

فلسفہٴ سیاست اسلامی Ú©Û’ باب میں اسلامی Ú©ÛŒ قید Ú©Û’ مفہوم Ú©ÛŒ وضاحت کرنا ہے یہ مسئلہ اس جہت سے قابل اہمیت Ú©Û’ بہت سے افراد کا عقیدہ ہے : فلسفہ Ú©ÛŒ تعریف Ú©Û’ مطابق، اس طرح کا موضوع بشری تفکرات کا مستقل نتیجہ ہے؛ لہٰذا اس رو سے دین Ú©ÛŒ قید سے مقید نہیں ہوسکتا، نتیجةً فلسفہٴ سیاسی اسلامی ایک متناقض عبارت ہوگی، (قادری، ۱۳۸۲،/Û¸/Û·) ایسے نظریہ Ú©Û’ مقابل میں بہت سے جوابات دیئے گئے ہیں کہ جن میں فلسفہٴ سیاسی Ú©Ùˆ اسلام Ú©ÛŒ قید Ú©Û’ ساتھ مختلف عبارتوں میں پیش کیا گیا ہے؛ البتہ اسلامی فلاسفہ بھی فلسفہٴ سیاسی Ú©Ùˆ علم سیاست دینی سے جدا ہونے پر تاکید کرتے ہیں،ان Ú©ÛŒ طبقہ بندی میں علم سیاست دینی Ú©Ùˆ علم نوامیس سے تعبیر کیا جاتا ہے (خواجہ، گذشتہ حوالہ، ص۲۵۲)  لیکن علم نوامیس کا فلسفہٴ سیاسی سے جدا ہونا، فلسفہٴ سیاسی سے فقہ سیاسی اور کلام سیاسی Ú©ÛŒ جدائی Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… میں ہے اور اسلامی ہونے Ú©ÛŒ بحث فلسفہٴ سیاسی پر ناظر نہیں ہے، اس علوم میں اس طرح Ú©ÛŒ تفکیک سیاسی مباحث Ú©ÛŒ کیفیت Ú©Û’ نظریہ Ú©Û’ مطابق پیش Ú©ÛŒ جاتی ہے، خواجہ نصیر الدین Ú©ÛŒ تعبیر Ú©Û’ مطابق فلسفہٴ سیاست Ú©Û’ احکام، امور سیاسی Ú©ÛŒ طبیعت پر موقوف ہیں اور علم نوامیس، احکام وضعی پر موقوف ہیں (گذشہ حوالہ)

فلسفہٴ سیاست اسلامی کی اسلامی قید کی تشریح کے سلسلے میں بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں، ان میں اہم نظریات اس طرح ہیں:

۱)۔ اسلامی فلسفہٴ سیاست، اسلامی سیاسی تفکر کے معنی میں ہے: ”فلسفہٴ سیاسی“ کبھی تو غیر تخصصی عبارتوں میں سیاسی تفکر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، سیاسی میدان میں سیاسی تفکر ہر طریقے اور نظریات کو بیان کرتا ہے، اس جہت سے وہ عام اور وسیع ہے، سیاسی تفکر کا سیاسی فلسفہ سے عام اور فراگیر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی تفکر کسی خاص قید یاروش سے مقید نہیں ہے اور ہر طرح کی سیاسی فکر کو شامل ہے؛ لیکن سیاسی فلسفہ، عقل تفکر اوراستدلال کی حکایت کرتا ہے، بیشک ہم اسلامی تفکر میں ایک خاص سیاسی نظریہ کی تلاش میں ہیں، جس طرح سیاسی تفکر اسلامی صفت سے متصف ہوتا ہے، اسی طرح ”فلسفہٴ سیاسی“ کو ”اسلامی“ صفت سے متصف ہونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے معلوم ہوتا ہے حکیمی بھی اسلامی سیاسی تفکرات کی طبقہ بندی کرتے ہوئے اسلامی سیاسی فلسہ پر اس طرح کا نظریہ رکھتا تھا (حکیمی،۱۳۵۷)

۲) ۔اسلامی فلسفہٴ سیاست مسلمانوں کے فلسفہٴ سیاست کے معنی میں:دوسرا احتمال یہ ہے کہ فلسفہٴ سیاستِ اسلامی سے غرض ”اسلامی متفکرین یا مسلمانوں کا سیاسی فلسفہ ہے“ اس صورت میں اسلام کا فلسفہٴ سیاست، فارابی، ابن رشد، خواجہ نصیر وغیرہ جیسے افراد کا سیاسی فلسفے سے عبارت ہوگا ۔

۳)۔اسلامی فلسفہٴ سیاست کا اسلامی دنیا کے جغرافیہ سے تعلق: تیسرا احتمال یہ ہے کہ ”اسلام“ کی قیدکسی خاص جگہ جیسے اسلامی دنیا یا اسلامی ممالک یا کسی خاص زمانہ جیسے اسلامی دور کا درمیانی حصّہ مراد ہو، اس صورت میں بھی فلسفہٴ سیاسی کو اس قید سے مقید کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوگی۔

۴)۔ اسلامی فلسفہٴ سیاست میں مفروضات کا اخذ کرنا: ”اسلامی فلسفہٴ سیاست“ سے مراد سیاست کے سلسلے میں اسلام کے قابل قبول مفروضات کو مدّنظر رکھتے ہوئے فلسفی تفکر ہے؛ البتہ اس جیسے نظریہ کو مختلف فلسفیوں میں کسی نہ کسی رنگ میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، ہر فلسفی مکتب اپنے کچھ مفروضات اور کچھ خاص نظریوں سے پہچانا جاتا ہے، اسی وجہ سے فلسفہٴ عیسائی دنیا میں، عیسائی مفروضات ک تحت تاثیر اور ماڈرن دنیا میں تغییر وتحوّل کے مفروضات کے زیر اثر رہا جس نے رسانس کے بعد مختلف صورتیں اختیار کیں، اسلامی تفکر میں ان مفروضات کو مبادی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے (ابن سینا، ۱۴۰۰: ص۳۰)

۵)۔ اسلامی فلسفہٴ سیاست سے اسلام میں سیاسی زندگی سے مرتبط عقلی اور استدلالی تعلیمات: ایک احتمال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ فلسفہٴ سیاسی سے مراد فقط سیاسی امور کے متعلق عقلی اندیشے اور منظم استدلال ہو، فلسفہ کی ایسی تعریف میں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسے بشری استدلال اور تاٴمُّلات پائے جائیں، اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے اسلامی فلسفہٴ سیاسی کے بارے میں لب گشائی کی جائے اور کہا جائے: اسلامی فلسفہٴ سیاسی سے مراد خود اسلامی متون مقدس میں ہی عقلی استدلال اور تاٴمُّلات کا وجود ہے ۔

اس احتمال کا تیسرے احتمال سے فرق یہ ہے کہ اس میں استدلال کے مبادی، متون مقدس ہے(قرآن وسنت) لئے گئے ہیں کہ جس کے نتیجے میں مسلمان اُن سے تمسک کرتے ہوئے تفکر سیاسی کا ایک نظریہ پیش کرتے تھے کہ جس کو ہم فلسفہٴ سیاسی کے نام سے جانتے ہیں اور مذکورہ بالا محقق کی نظر میں کلام سیاسی سے متقارن ہے؛ حالانکہ آخری احتمال سے مراد خود اسلامی متون مقدس میں منتظم عقلی استدلال کا وجود ہے ۔

۲۔ اسلامی فلسفہٴ سیاست کا امکان



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next