اسلامی سیاست کافلسفہ



اسلامی فلسفہٴ سیاست کے بارے میں پیش کئے گئے سب نظریات عملی طور پر اسلامی محققوں اور اندیشمندوں کی نظر میں قابل قبول اور متفق علیہ ہیں پہلے تین نظریات میں محققین کے درمیان نزاع ہے ۔ اسلامی فلسفہ سیاست اسلامی سیاسی تفکر کے معنی میں (پہلا نظریہ ) سیاسی میدان میں مسلمان فلاسفہ اور اندیشمندوں کے تفکرات کے نظریہ کے مطابق اس کی تشریح (تیسرے معنی) یہ تمام متفق علیہ ہیں اور ان میں کوئی مناقشہ نہیں ہے، فلسفہٴ سیاسی کی اندیشہ سے تعریف کرنا غیر رائج اور فلسفہٴ سیاسی سے عقلی روش خارج ہونا ہے ، لیکن آخری ددو معنی یعنی اسلامی تعلیمات کو سیاسی فلسفہ کے مبادی کے عنوان سے اختیار کرنا (چوتھے معنی)اور عقلی وفلسفی روش کو اسلام کے متون مقدس (قرآن وسنت) میں جاری کرنا (پانچویں معنی) بہت سے متفکرین نے مناقشہ کیا ہے ۔

معلوم ہوتا ہے کہ آخری دو معنوں میں سے چوتھا معنی اسلامی فکری سنت میں قابل قبول واقع ہوا ہے ،فلسفہٴ سیاسی میں رئیس اول (فارابی) Ú©Û’ کردار اور عالم عقول سے اس Ú©Û’ روابط Ú©Ùˆ مد نظر رکھتے ہوئے کہ جو ایک طرح سے پیغمبروں Ú©ÛŒ کارکردگیوں سے ارتباط رکھتا ہے ØŒ عملی طور سے فارابی Ú©Û’ فلسفی تفکر Ù…Úº موجود دینی مبادی،باب سیاست میں  قبول کئے گئے ہیں، ابن سینا Ú©Û’ فلسفے میں بھی دینی تعلیمات Ú©Ùˆ فلاسفہ سیاست Ú©Û’ مباحث Ú©Ùˆ جہت عطا کرنے Ú©Û’ عنوان سے تاکید Ú©ÛŒ گئی ہے Û”

 Ø§Ø³ Ù†Û’ ”رسالہ عیون الحکمہ میں فلسفی مباحث “ Ú©ÛŒ تحقیق کرتے ہوئے عقل Ú©Ùˆ فقط امور نظری کا ملاک جانا ہے اور حکمت نظری Ú©Û’ تینوں مباحث Ú©Ùˆ فقط قوہٴ عقلیہ سے قابل درک اور اس بات میں موجود شریعتوں Ú©ÛŒ ہدایات Ùˆ ارشادات Ú©Ùˆ صرف مُنَبِّہ جانتا ہے؛ لیکن علمی مسائل Ú©Û’ باب اور حکمت عملی Ú©Û’ مبادی Ú©Û’ باب میں معتقد ہے: ان تین علوم (حکمت مدنی، منزلی اور خلقی) کا مبداٴ شریعت الٰہی Ú©ÛŒ جانب سے مستفاد ہے اور اس Ú©Û’ کمال اور حدود شریعت Ú©Û’ ذریعہ روشن ہوتے ہیں اور شریعت Ú©Û’ بیان کرنے Ú©Û’ بعد انسانی قوہٴ نظری قوانین عملی Ú©Û’ استنباط میں مشغول ہوتی ہے اور جزئیات میں ان قوانین Ú©Û’ استعمال Ú©Ùˆ معین کرتی ہے Û” (ابن سینا، گذشتہ) بہت سے معاصرین Ù†Û’ بھی فلسفہ Ú©Û’ اسلامی صفت سے متصف ہونے کو، اس میں مبادی دینی Ú©Ùˆ اخذ کرنے Ú©Û’ معنی میں قبول کیا ہے Û” نمونہ Ú©Û’ طور پر سید حسین نصر معتقد ہے: فلسفہ اسلامی Ú©Û’ اسلامی ہونے سے مراد ØŒ بہت سی اسلامی تعلیمات Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ اندر، مبادی Ú©ÛŒ صورت میں قبول کرنا ہے (نصر Û±Û³Û¸Û²) کبھی کبھی یہ فکر، علم Ùˆ فلسفہ Ú©Ùˆ ایک معرفت Ú©Û’ دائرہ میں یا یعنی لازمی طور سے دین سے غذا حاصل کرنے Ú©Û’ عنوان سے پیش Ú©ÛŒ گئی ہے (میر باقری Û±Û³Û¸Û²/Û±Û±/Û±Û¸ )

کچھ موارد میں یہ امر فقط منبع وحی میں منحصر ہوا ہے ، اس نظریہ میں عقل وشہود بھی معرفت کے ذرائع ہیں؛ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر طرح کی فکرپردازیاں ولایت خدا کے قبول کرنے کے تحت ہونا چاہیے؛ ورنہ باطل ہیں اور حقیقت دین یعنی پوری حیات انسانی میں ولایت الٰہی کو جاری ہونا مانا گیا ہے اور دین حیات انسانی میں ولایتِ خدا سے تولّیٰ ہے اور فلسفہ اسلامی عالم ہستی کے نظری موضوعات کے لئے ولایت خدا کے تعبُّد کی بنیاد پر ایک طرح کی عقلائی کوشش ہے اور اسلام کا سیاسی فلسفہ، حیات بشری میں سیاسی مدیریت پر حاکم مبانی اور تاملات کی ایک ایسی ہی تحلیل ہے؛ (فیاضی، ۱۳۸۲/ ۵/۱۲) البتہ کبھی کبھی عقل کو ہر طرح کے مفروضات سے مستقل جانتے ہوئے، فلسفہٴ اسلامی میں مبادی اسلامی کے اخذ کرنے کے معنی کی نفی کی گئی ہے ۔

 Ø¹Ù…Ù„ÛŒ طور سے ماڈرن مغربی یورپ میں یہ مفروضات طرح طرح Ú©Û’ فلسفی مکاتب Ú©Û’ وجود میں آنے کا باعث ہوئے ہیں، اس کام کا واضح نمونہ Ú©Ùˆ فرانس Ú©Û’ فلسفی نظریات میں واضح طور سے دیکھا جاسکتا ہے کہ جو فرانسسی فلسفہ کا قارّہ ای فلسفہ سے جدائی کا سبب جانا گیا ہے، اس فلسفی مکتب Ú©Û’ عمدہ مفروضات فرانس میں برگسن Ú©Û’ شہودی تاملات جانے گئے ہیں (ھیوز، Û±Û³Û¶Û¹)

اسلامی فلسفہٴ سیاست کے پانچویں معنی کے امکان کے سلسلے میں یعنی دینی متون میں فلسفہٴ سیاست سے مرتبط استدلالات کے موجود ہونے کے معنی میں ،معلوم ہوتا ہے کہ ایسے نظریہ کو کچھ قیود کے ساتھ قبول کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ وحی، عقلی بنیادوں پر استوار ہے اور عقل بشری نے اس کو معتبر بنانے کے لئے طرح طرح کے استدلال اقامہ کئے ہیں؛ اس بنیاد پر وحی اور نبوت اپنے عام معنی میں، عقلانی ہونے کے علاوہ فہم بشری کی حدود اور عقلانی مشرب کے اساس پر کچھ خاص قضیے پیش کئے گئے ہیں، اس کے مختلف نمونوں کو قرآن وروایات میں دیکھا جاسکتا ہے(سبحانی،۱۴۱۷)

اسلامی فلسفہٴ سیاست کے اس معنی کو قبول کرنا کچھ نکات پر موقوف ہے: پہلا یہ کہ متون دینی، بشر کے لئے ہدایت کی راہوں کے بیان کرنے کے مقام میں ہے اور اس جہت سے مخاطبان کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بشری ہدایت کے لئے بہت سے استدلال اور راہیں پیش کی گئی ہیں ۔

اس کے واضح نمونہ کو قرآن مجید میں بتائے گئے مختلف استدلال کے طریقوں میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے، سورہٴ نحل کی آیت ۱۲۹ میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے طریقے کو حکمت آمیز دعوت دینے کی سفارش کی گئی یہ ہے اور بوقت ضرورت آپ کو جدال احسن کا بھی حکم دیا گیا ہے <ادع الی السبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجاء لھم بالتی ھی اٴحسن>(نحل/۱۲۹)

تبلیغ دین اور انبیاء علیہم السلام دعوت میں اس طرح کی روش کو اپنانا اس بات کا سبب ہوا ہے تاکہ متون دینی (قرآن وروایات) بحسب لیاقت مخاطبان، متنوِّع اور مختلف طُرُق استدلال کو شامل کرلے، اس چیز کا نتیجہ یہ ہوتا ہے متون دینی سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ تمام مباحث اور فلسفہٴ سیاست کے تمام مسائل یکجا وبصورت مبسوط اس میں جمع کئے گئے ہوں اور فقط عقلی استدلال کی روش کی تائید کی گئی ہو؛ لیکن یہ امر دین کی جامعیت اور اس کے زندگی تمام پہلووٴں پر ناظر ہونے کی نفی نہیں کرتا البتہ متون دینی میں کچھ عقلی استدلال کے ذکر ہونے سے ضروری نہیں ہے کہ اس میں تمام مسائل ، عقلی استدلال کی روش پر بطور کامل موجود ہوں ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ فلسفہ کو فقط دانش بشری ماننا اور اس کو فقط عقلائی استدلال سے مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس کو اس سے زیادہ عام کیا جاسکتا ہے، اسلامی فلاسفہ نے غالباً فلسفہ کو باوجود اس کے کہ وہ پیغمبروں علیہم السلام اور دینی تعلیمات پر پورا یقین رکھتے تھے ، اس کے بشری معنی میں اخذ کیا ہے، ان کی نظر میں ”فلسفہٴ انسان کو عالم خارجی سے مشابہ عالم عقلی میں تبدیل کرنے کا نام ہے“(ملا صدرا، ۱۳۶۸: ج، ص۳۰۰)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next