عقاب الاعمال ۲



(۳) اسحاق بن عمار صیرفی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے عرض کی ان دو کے متعلق مجھے کچھ بتائیں میں نے ان کے متعلق آپ کے والد محترم (علیہ السلام) سے بھی کافی روایتیں سن رکھی ہیں فرمایا اے اسحاق پہلا بچھڑے اور دوسرا سامری کی مانند ہے میں نے عرض کی ، مزید بتائیے فرمایا خدا کی قسم انہوں نے کچھ لوگوں کو یہودی ، نصرانی اور مجوسی بنا ڈالا خدا انہیں معاف نہیں کرے گا ، میں نے عرض کی مولا مزید بتائیں۔ فرمایا یہ تین ہیں۔ خدا ان پر نظر کرم نہیں کرے گا ، ان کا تزکیہ نہ ہوگا (بلکہ) ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔ میں نے عرض کی آپ پر قربان جاؤں یہ کون ہیں ؟ فرمایاایک وہ ہے جو غیر الله کی طرف سے امامت کا دعویدار بن بیٹھے ، دوسرا وہ ہے جو منصوص من الله امام پر طعن کرے او رتیسرا وہ ہے جو یہ خیال کرے کہ ان دونوں کا اسلام کیساتھ کوئی تعلق ہے میں نے عرض کی ، آپ پر قربان جاؤں ذرا وضاحت فرمائیں۔ فرمایا اے اسحاق اس کے لئے فرق نہیں ہے کہ قرآن کی محکم آیت کو محو کر ڈالے ، یا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کردے یا یہ خیال کرے کہ آسمان پر کوئی معبود نہیں ہے یا حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) پر کسی کو مقدم جانے میں نے عرض کی آپ پر قربان جاؤں کچھ اور وضاحت فرمائیں فرمایا اے اسحاق جہنم کا ایک دروازہ ہے جسے (سقر) کہا جاتا ہے جب سے الله نے اسے پیدا کیا ہے اس نے سانس تک نہیں لیا اگر الله تعالیٰ اسے سوئی کی نوک کے برابر بھی سانس لینے کی اجازت مرحمت فرما دیتا تو یہ تمام اہل زمین کو جلا کر راکھ بنا دیتا (جبکہ) اہل جہنم اسکی تپش ، بد بو، کثافت اور عذاب سے پناہ مانگتے ہیں اسے الله نے اس جہنم کے حقداروں کیلئے مہیا کر رکھا ہے اس میں ایک پہاڑ ہے اس پہاڑ کے رہنے والے تمام لوگ اس تپش ، بدبو، کثافت اور عذاب سے پناہ مانگتے ہیں اسے الله نے اس کے اہلیان کے لئے مہیاکر رکھی ہے بے شک اس پہاڑ میں درہ ہے اس پہاڑ کے تمام رہنے والے اس درے کی اس ، گرمی ، بدبو،گندگی اور عذاب سے پناہ مانگتے ہیں اسے الله نے اسکے اہل لوگوں کیلئے مہیا کر رکھا ہے اس درے میں ایک کنواں ہے اس درے کے رہنے والے اس کنوئیں کی گرمی ، بدبو، کثافت اور عذاب سے پناہ چاہتے ہیں اسے الله نے اس کے اہل لوگوں کو دے رکھا ہے اس کنویں میں ایک اژدھا ہے ، کنویں کے لوگ اس کی خباثت ، بدبو اور زہر سے الله کی پناہ چاہتے ہیں جو الله نے اس کے اہلیان کے لئے مہیا کر رکھا ہے ۔ اس اژدھے کے پیٹ میں سات صندوق ہیں ، جن میں پانچ کا تعلق گذشتہ امتوں سے ہے اور دو اس امت سے ہیں میں نے عرض کی آپ پر قربان جاؤں وہ پانچ کون ہیں اور یہ دو کون؟ فرمایا جہاں تک گذشتہ پانچ لوگوں کا تعلق ہے تو ایک قابیل ہے کہ اس نے ہابیل کو قتل کیا دوسرا نمرود ہے جس نے رب کے متعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا اور کہا میں زندہ کرتا ہوں اور موت دیتا ہوں تیسرا فرعون ہے جس نے کہا میں تمہارا سب سے بڑا پروردگار ہوں۔ چوتھا یہودا ہے جس نے ایک گروہ کو یہودی بنایا اور پانچواں بولس ہے جس نے کچھ لوگوں کو نصرانی بنا ڈالا اور دو اعرابی اسی امت سے ہیں۔

حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے قاتلوں کی سزا

(۱) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)کی بارگاہ میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے قاتل کا تذکرہ چل نکلا آپ کے ایک صحابی نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ الله حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے قاتل سے اس دنیا میں ہی انتقام لے لے َ فرمایا گویا تو الله کے عذاب ( آخرت ) کو کم جانتا ہے حالانکہ وہ عذاب زیادہ شدید اور سخت ہے ۔

( ۲ ) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا جہنم کی ایک جگہ ایسی ہے جسکا حضرت امام حسین (علیہ السلام) یا حضرت یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کے قاتل کے علاوہ کوئی مستحق نہیں ہے ۔

(۳) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے فرمایا۔جب قیامت ہوگی تو حضرت فاطمہ = کیلئے ایک نور کا گنبد بنایا جائے گا حضرت امام حسین (علیہ السلام) اپنے سر کو ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے اس گنبد میں آئیں گے جو نہی حضرت فاطمہ = انہیں دیکھیں گی تو اس طرح گریہ کریں گی کہ پورا محشر ، مقرب فرشتے ، انبیاء مرسل اور مؤمن بندے گڑگڑا کر رونے لگیں گے اس وقت خداوند متعال بصورت مثال، سر کے بغیر ایک خوبصورت شکل کے انسان کو پیدا کرے گا جو حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے قاتلوں سے جنگ کرئے گا پھر خداوند متعال تمام قاتلوں اور ان کیساتھ شریک لوگوں کو جمع کرے گا یہ مثال سب کو قتل کر ڈالے گی وہ دوبارہ زندہ ہونگے ، حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) انہیں قتل کریں گے ، پھر زندہ کیئے جائیں گے حضرت امام حسن (علیہ السلام) انہیں موت کے گھاٹ اتاریں گے دوبارہ زندہ ہونگے حضرت امام حسین (علیہ السلام) انہیں فی النار کریں گے پھر زندہ ہونگے ہماری ذریت میں کوئی شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو انہیں موت کی نیند نہ سلائے پھر غیض سے پردہ اٹھے گا سب حزن اور غم بھول جائیگا۔ اس وقت حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا الله ہمارے شیعوں پر رحم کرے خدا کی قسم ہمارے شیعہ حقیقی مؤمن ہیں خدا کی قسم اس مصیبت میں طولانی غم و اندوہ کیساتھ ہمارے شریک رہے ہیں۔

(۴) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم حضرت قائم آل محمد ( عج ) حضرت امام حسین کے قاتلوں کی نسلوں کو انکے آباؤ اجداد (علیہ السلام)کے جرم میں موت کی نیند سلائیں گے۔

( ۵ ) حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ قیامت والے دن حضرت فاطمة الزہراء = اپنے خاندان کی خواتین کے حلقے میں تشریف لائیں گی، ان سے کہا جائے گا بہشت میں تشریف لے جائیں ۔ فرمائیں گی ! جب تک یہ نہ جان لوں کہ میرے بعد میرے بیٹوں سے کیا سلوک کیا ہے ، میں نہیں جاؤں گی انہیں کہا جائے گا کہ وسط قیامت میں دیکھیں وہ دیکھیں گی کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام)بغیر سر کے کھڑے ہونگے وہ غمناک آواز سے چیخ اٹھیں گی اور میں بھی دردناک گریہ کرونگا اور فرشتے میری فریاد سن کر روئیں گے اس وقت خداوند متعال کو جلال آئیگا اور ﴿ہبہب ﴾ نامی آگ سے فرمائے گا (اس آگ کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا ہو گا یہاں تک کہ سیاہ ہوچکی ہوگی اس میں کبھی کوئی خوشی داخل نہ ہوگی اور کوئی غم و مصیبت اس سے باہر نہ نکلی ہوگی) قاتلان حضرت امام حسین (علیہ السلام)اور حاملان قرآن (یعنی قاتلان حسین (علیہ السلام) اگر چہ حافظ قرآن ہی کیوں نہ ہوں) کوتلاش کرو انہیں لایا جائے گا اور اس جہنم میں ڈالا جائے گا، شکنجوں میں جکڑا جائے گا تو وہ روئیں گے یہ آگ بھی روئے گی وہ غرّائیں گے تو یہ آگ بھی غرّائے گی وہ فصیح زبان میں کہیں گے خدایا ہمیں بت پرستوں سے پہلے کیوں جہنم میں ڈالا گیا ہے ؟ الله کی طرف سے جواب ملے گا جاننے والا نجاننے والوں جیسا نہیں ہے۔

(۶)جناب عبد الله بن بکر ارجانی کہتے ہیں کہ میں مدینہ سے مکہ کی مسافرت میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا ہمسفر تھا ہم غسفات نامی منزل پر پہنچے وہاں سے چلے تو جبل اسود جیسا وحشت ناک راستہ دیکھنے کو ملا میں نے عرض کی اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یہ کتنا وحشت ناک راستہ ہے سفر کرتے ہوئے پہلی مرتبہ اتنا خطرناک پہاڑ دیکھا ہے حضرت نے فرمایا جانتے ہو یہ کونسا پہاڑ ہے ؟ اسے جبل الکمد کہتے ہیں یہ جہنم کے درّوں میں ایک درّہ ہے جس میں الله تعالیٰ نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے قاتلوں کا ٹھکانہ قرار دیا ہے اس کے نیچے جہنم غلین کا پانی جاری ہے یعنی (گندی اور خون آلود) صدید ( کثافت سے بھری ہوئی ) حمیم (گھولتا پانی ) نامی بہترین بہتی ہیں یہ لوگ کبھی جہنم سے نہ نکلیں گے یہ زانی عورت کی شرم گاہ سے نکلنے والی کثافت ، جہنم نظی ، حُطَمہ، سقر ، جہنم ہاویہ اور سعید سے نہ نکلنے پائیں گے میں جب بھی اس پہاڑ کے نزدیک سے گزرتا ہوں تو ٹھہر کر دیکھتا ہوں کہ یہ دونوں آدمی گڑ گڑا کر مدد مانگتے ہیں حالانکہ انہوں نے میرے باپ کو قتل کرتے وقت خیال تک نہ کیا میں ان سے کہتا ہوں یہ تمھارے کیئے کا دھرا ہے جب طاقت تمھارے ہاتھ تھی تو تم نے ہم پر رحم نہ کیا جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو ہمیں قتل کیا ، ہمیں محروم کیا ہمارے حق کو پامال کیا ہمارا لحاظ کیئے بغیر جو چاہا ظلم کیا تم پرر حم کھانے والے پر الله کبھی رحم نہ کرے اپنے اعمال کا ذائقہ چکھو۔ الله تو کسی بندے پر خوا مخواہ ظلم نہیں کرتا۔

(۷)یعقوب بن سلیمان کہتے ہیں کہ ایک رات ہم لوگوں میں حضرت امام حسین (علیہ السلام)کی شہادت کا تذکرہ چل نکلا ایک شخص کہنے لگا جو لوگ بھی حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے قتل میں شریک تھے سب کے سب کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہوئے ہیں یا ان کے گھر والوں نے ضرور کوئی مصیبت دیکھی ہے ایک بوڑھے نے کہا میں نے امام حسین(علیہ السلام)کے قاتلوں سے تعاون کیا اور ان کا شریک تھا مجھے تو کسی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑا لوگوں کو اس کی یہ بات انتہائی بری لگی اچانک مٹی کے تیل کا دیا خراب ہو گیا یہ اسے درست کرنے کے لئے اٹھا اسکی انگلیوں میں آگ لگ گئی اور وہ جلی گئیں پھر اسکی داڑھی تک آگ پہنچی یہ پانی کی طرف بھاگا اور باہر نکل کر نہر میں چھلانگ لگا دی لیکن آگ نے اسکے سر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جب اسے نہر سے باہرنکا لا گیا تو یہ مکمل طور پر جل چکا تھا یہاں تک کہ یہ لعین مرگیا (الله اس پر لعنت کرے)

(۸)قاسم بن اصبغ بن نباتہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے بنی دارم کے ایک حسین و جمیل اور انتہائی سفید رنگ شخص کو دیکھا یہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے قتل میں شریک تھا ، اب انتہائی سیاہ رنگ بد شکل ہو چکا تھا میں نے اس سے کہا کہ میں نے تجھے بہت مشکل سے پہچانا ہے ، تیرے رنگ کو کیا ہوا ؟ اس نے کہا کہ میں نے حضرت امام حسین (علیہ السلام)کے ایک خوبصورت جوان کو قتل کیا تھا ، اس کی پیشانی پر سجدے کی نشان تھے ، پھر میں اسکا سر اپنے ساتھ لے گیا (اسوقت سے سیاہ رو ہوگیا ہوں)قاسم کہتے ہیں کہ قتل کرتے وقت میں نے اس شخص کو انتہائی خوشی میں دیکھا تھا، یہ گھوڑے پر سوار تھا اس نے سر کو گھوڑے کی گردن میں لٹکایا ہوا تھا اور سر مسلسل گھوڑے کے شانوں سے ٹکرا کر اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا میں نے اپنے والد سے کہا ، کاش یہ تھوڑا سا سر کو اونچا باندھ لیتا ، کیا آپ دیکھ نہیں رہے شانوں سے ٹکرا کر سر کی کیا حالت ہو رہی ہے!

۱ میرے والد نے کہا میرے لخت جگر جس ظلم کو تو دیکھ کر ٹرپ اٹھا ہے انہوں نے اس سے زیادہ ظلم کیئے ہیں وہی شخص مجھ سے کہنے لگا کہ جب سے میں نے اسے قتل کیا ہے، صبح ہونے تک یہ مسلسل میرے خواب میں آتاہے اور میرے کندھے سے پکڑ کر کہتا ہے ، اٹھو اور پھر یہ مقتول مجھے جہنم کی طرف لیجا کر اس میں پھینک آتا ہے قاسم کہتے ہیں کہ میں نے اس کی بیوی سے کہتے ہوئے سنا کہ ہم ساری رات اسکی بکواس سنتے سنتے صبح تک نہیں سو سکتے قاسم کہتے ہیں کہ اس کے قبیلے کے بعض نوجوان اسکی بیوی کے پائیں گئے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ اس نے خودہی سب کچھ کیا ہے اور تمہیں سچ کہا ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next