قانون کے سلسلہ میں نظریاتی میں فرق



اسلام کی رو سے قانون ساز اور قانون کا نافذ کرنے والا خدا کی جانب سے منسوب ھونا چاھئے؛ یعنی قانون کو یا خدا بلاواسطہ بیان کرے جیسا کہ سماجی قوانین سے متعلق آیات اس بات کو بیان کرتی ھیں، یا ن قوانین کو پیغمبر اسلام یا ائمہ معصومین علیھم السلام کے ارشادات اور آیات قرآن کی تفسیر میں بیان ھوئے ھیں جو کہ سنت کے ذیل میں آتے ھیں ، ان قواین میں سے بعض دائمی ،مستحکم اور ناقابل تبدیل ھیں اور بعض میں تبدیلی ھوتی رھتی ھے، جو زمانہ اور جگہ سے لحاظ سے ھوتے ھیں، غیبت امام (ء) کے زمانے میںان کو معین کرنے کا اختیار ان افراد کو دیا گیا ھے کہ جو دینی معلومات، پرھیزگاری اور عدالت اور معاشرہ کی مصلحتوں سے آگاھی کے اعتبار سے امام معصوم علیہ السلام سے بھت قریب ھوتے ھیں- اور نفاذ قانون کے سلسلے میں بھی ھم نے یہ عرض کیا کہ خود خداوندعالم اس کے نفاذ کا ذمہ دارنھیں ھے بلکہ یہ کام اس شخص کے ذریعہ انجام پانا چاھئے جو نفاذ قانون کا ذمہ دار ھو، اور وہ پھلے مرتبہ میں خود پیغمبر اسلام پھر ائمہ معصومین علیھم السلام اورپھر وہ افراد ھیں جو پیغمبر یا امام علیہ السلام کی جانب سے خاص یا عام طور پر معین کئے گئے ھوں-

مذکورہ نظریہ کی بنیاد ایک طرح کے بنائے ھوئے اصول پر ھے کہ جس میں سے پھلی اصل یہ ھے کہ معاشرہ کو قانون کی ضرورت ھے، اور دوسری اصل یہ ھے کہ قانون کو خدا کی جانب سے ھونا چاھئے، ان دو مرحلوں کے بعد نفاذ قانون کے مرحلوں کو بیان کیا جاتا ھے، جو حضرات ان اصولوں کے قائل ھیں مثلاً مسلمان ھیں یا اسلام کے اصولوں کے معتقد ھیں ان سب کے لئے بحث میں داخلی نظم کا لحاظ کرتے ھوئے اس نظریہ کا ثابت کرنا کوئی مشکل کام نھیں ھے، لیکن جو افراد اسلام کے اصولوں کے معتقد نھیں ھیں یا جو ان مسائل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاھتے ھیں تاکہ دشمنوں کے اعتراضات کا جواب دے سکیں ان کے لئے ھر ایک اصول کو بھت تفصیل سے بیان ھونا ضروری ھے-

دور حاضر میں قانون سے بحث کرنے کی ضرورت

اس دور میں سیاسی مسائل کے بارے میں مختلف طرح کے نظریات ھمارے سامنے ھیں ،لھٰذا حکومت وسیاست کی فکری بحثوں کے بارے میں اسلام کی روسے زیادہ توجہ ھونا چاھئے تاکہ ھم مخالف نظریوں کے مقابلہ میںاسلامی نظریہ کو مستحکم ویقینی شکل میں پیش کرسکیں، خاص طور سے اس بات کا لحاظ کریں کہ عالمی استعمار اسلامی حکومت کے نظریہ کو پامال کرنے کی مسلسل کوشش کررھا ھے، اس وقت ھم انقلابی دو رمیں اور ایسے زمانے میں زندگی بسر کررھے ھیں کہ نظام ِ حکومت کو ثابت کیا جاچکا ھے، اور اسلام کے نظریات کو پیش کرنے کے لئے علمی اور منطقی وسائل سے فائدہ اٹھانا چاھئے-

اور اس بات کے پیش نظرکہ ملک کے راھنماؤں کی طرف سے قانون مندی اور نفاذِ قانون کا نعرہ لگایا جاتا ھے ، لھٰذا عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ قانون کے مسئلہ کے اصول، حدوداور اھمیت پر توجہ رکھنی چاھئےے،او ر اس بات سے آگاہ ھوں کہ ھم کیوں؟ اور کس حد تک قانون کی پیروی کریں؟ یہ وہ اسباب ھیں جو اس زمانہ میں،اسلام کے سیاسی اور حکومتی مسائل کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت کو دوگناہ کردیتے ھیں، لھٰذ ھمیں ایک حد تک ان تمام بحثوں کو علمی اور تحقیقی شکل میں پیش کرنا چاھئے-

قوانین کے حدود کو معین کرنے میں دو مختلف نظریے

آج کا انسانی معاشرہ مختلف طرح کے بے شمار وقوانین سے دوچار ھے، اور اگر ھم ان کتابوں پر نظر ڈالیں جو پچاس ساس قبل ھمارے لئے لکھی گئی ھیں تو ھم یہ سمجہ جائیں گے کہ ان کتابوں کی زخامت میں اضافہ تقریباً قاعدہ عددی کی ارتقائی شکل میں ھے اور جو قوانین اس زمانے میں پائے جاتے تھے ان کی تعداد آج کے قوانین کی تعداد کی نسبت بھت کم ھیں، پھر خاص طور سے آج کل کے شعبہ جات، آئین ناموں، دفتری اور قوانین منتظمہ کی تعدا میں روز بروز اضافہ ھورھا ھے، اور معاشرے کو نئے قوانین کی ضرورت کا زیادہ سے زیادہ احساس ھورھا ھے، اور ذمہ دار حضرات بھی ان قوانین کے بنانے اورنافذکرنے میں اپنی پوری کوشش ومحنت لگادے رھے ھیں-

یھاں پر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا قانون کی تعداد میں اضافہ کرنا معاشرہ کے لئے ضروری ھے؟ یہ سوال پھلی نظر میں سادہ اور عمومی معلوم ھوتا اھے اور کوئی خاص سوال معلوم نھیں پڑتا اس لئے کہ یہ بات واضح ھے کہ معاشرہ کو ھر روز جدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رھا ھے، اور یہ معاشرہ جدید قوانین کا بھت زیادہ نیاز مند ھے جو کہ بنائے اورنافذ کئے جانے چاھئےے،، لیکن دنیا کے علمی حلقہ میں یہ سوال اھمیت کے ساتھ ذکرھوتا ھے کہ کیا سماجی قوانین کے بنانے میں صرف ضروری اور کم سے کم پر اکتفاء کی جائے یا معاشرے کے قوانین جامع اور ھمہ گیر ھوں اور عوام کی زندگی کے تمام امور کو شامل ھوں؟ یہ مسئلہ فلسفہ سیاست اورفلسفہ حقوق کے عملی حلقوں میں اعلیٰ پیمانہ پرمورد بحث واقع ھوتا ھے، اور اس سلسلہ میں دو مختلف اور متضاد نظریہ پائے جاتے ھیں-

ایک گروہ کا اعتقاد یہ ھے کہ عوام الناس کو اپنے امور اور سرگرمیوں میں آزاد ھونا چاھئے اور محکمہ ٴ قانون سازی کو چاھئے کہ کم سے کم قانون بنائے اور ضرورت سے زیادہ عوام الناس کی فعالیت اور امور کو محدود نہ کرے، یہ وھی خودمختاری اور آزاد خیالی نظریہ ھے اور اس کا حقیقی مطلب یہ ھے کہ معاشرہ کا ھر فرد جس طرح بھی چاھے اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ھو، اور صرف پیش آنے والی ضرورتوں کے وقت کے لئے قانون بنائے، تاکہ لوگوں کی کارکردگی ضرورت کے تحت محدود ھو ، نہ کہ اس سے زیادھ، اور قانون سازی محکمہ اور حکومت کو مسلسل عوام الناس کے امور اور طرزِ زندگی میں دخالت نھیں کرنا چاھئے اور قدم قدم کے لئے قانون نھیں بنانا چاھئے، مذکورہ نظریہ کے مقابلہ میں قانون کے سلسلہ میں تمامیت گرائی (ھر چیز قانونی) کا نظریہ پایا جاتا ھے کہ تمام چیزیں قانونی ھونا چاھئے اور انسان کے تمام امورخواہ وہ سماجی ھوں یا سیاسی اور اقتصادی یا دوسرے امور ،یہ سب کے سب دقیق اور معین قوانین کے تحت ھونے چاھئے، اور حکومت کو بھی ان قوانین کو ھر ممکن طریقہ سے نافذ کرنا چاھئے-

تو معلوم یہ ھوا کہ مذکورہ سوال سادہ اور عوامی نھیں ھے بلکہ ایسا سوال ھے جو قانون کے حدود کے بارے میں دقیق اور مستحکم ھے اور وہ یہ کہ قانون گذاری کا محکمہ کس طرح کے قوانین اور کتنے قوانین او رعوام الناس کی زندگی کے کن حدود تک اثر انداز بنے؟



1 2 3 4 5 6 7 8 next