قانون کے سلسلہ میں نظریاتی میں فرق



لیکن جو لوگ اس راہ کو نھیں طے کرتے اور چاھتے ھیں کہ تمام چیزوں کو قرارداد کے ذریعہ بیان کریں ،آخر میں وہ ایک جگہ پھنس جاتے ھیں چونکہ ھر قانون کے اعتبار کی اصل حقوقِ بشر کو سمجھتے ھیں کہ اس کے اعتبار کی دلیل کو بھی تلاش کرنا چاھئے اس کے علاوہ یہ سوال بھی پیدا ھوتا ھے حقوق بشرکا اشتھار تقریباً 3۰ بند پر کیوں تدوین ھوا ھے اور اس کے بند کیوں کم زیاد نھیں ھیں؟

یہ وہ اھم سوال ھے جو دنیا کے حقوق کے ماھرین فلاسفہ قبول کرتے ھیں اور ابھی تک ان کی طرف سے کوئی اطمینان بخش جواب نھیں ملا ھے، جو چیز ذکر ھوئی ھے وہ دنیا کے ماھر اور برجستہ دانشوروں کی سطح پر مھارتی اور فنی بحثوں کے دائرہ میں بیان ھوتی ھے اور اگر ھمارا معاشرہ چاھے کہ اپنے عمومی تھذیب وثقافت کو ترقی دے تو اسے چاھئے کہ کم وبیش ان مطالب اور مفاھیم سے آشنا ھو، جس وقت ھم یہ کھتے ھیں کہ ھم قانون پر عمل کرتے ھیں اور قانون کے پیرو ھیں، تو ھم کو یہ جاننا چاھئے کہ قانونکا اعتبار کھاں سے ھے اورھمیں کیوں اور کس حد تک قانون کا پابند ھونا چاھئے؟

آج کل بھت ساری بحثیں اس سلسلے میں تقریروں، مجلّوں ا ور اخباروں میں شایع ھوتی رھتی ھے ، اور ھمارا تعلیم یافتہ طبقہ خصوصاً دنیاوی علوم رکھنے والا طبقہ اور جو لوگ انسانی علوم کے تعلیم یافتہ ھیں اور خاص طور سے جو لوگ فلسفھٴ حقوق اور فلسفہ سیاست میں صاحب نظر ھیں ان سوالات سے سامنا کرتے ھیں، لھٰذا ھم اپنے سماج کی تھذیب وثقافت کو بلند کرنے کے لئے مجبور ھیں کہ اپنے ا مکان بھر ان تحقیقات کے نتیجہ کو آسان اور سلیس انداز میںبیان کریں، اس لئے کہ اگر ھم ان بحثوں کو دقیق انداز سے اور تفصیل کے ساتھ بیان کریں تو کم سے کم علوم انسانی کے چار قسموں میں یا فلسفہ کی چار قسموں کا سھارا لیں جو اس طرح ھیں: فلسفہ جامعہ شناسی، فلسفھٴ حقوق ، فلسفھٴ اخلاق اور فلسفھٴ سیاست،اور اگر ھم چاھیں کہ اس موضوع پر بحث کریں تو ھمیں دوسرے فلسفوں پر بھی بحث کرنا ھوگی ،یھاں تک کہ معرفت شناسی کہ جو ان تمام فلسفوں کی بنیاد اور اصل ھے اس کے بارے میں بھی بحث کریں، اور یہ بات واضح ھے کہ ان علوم کے نتائج اور ان بحثوں کے درمیان جو رابطہ پائے جاتے ھیں ان کی طرف اشارہ کرنا،تعلیم یافتہ طبقہ اور سمجہ دار عوام کے لئے جو کہ انقلاب اور اس کی تھذیب وثقافت کے دامن میں پلے ھیں،بھت مفید ھے-

حقیقی اور تکوینی قوانین اور انسان کے اختیارات کی اھمیت

یھاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ھے کہ لفظ قانون کی دو مختلف اصطلاح ھیں،پھلی اصطلاح علوم تجربیات میں علوم دقیق اور حساب مشھور ھے اور قانون سے مراد اس علوم میں اشیاء کے درمیان واقعی رابطہ ھے مثال کے طور پر اشیاء کے درمیان حقیقی قوانین پائے جاتے ھیں کہ پانی کس وقت بخار میں تبدیل ھوتا ھے، اور کتنے درجھٴ حرارت پر پانی اُبلتا ھے او رکتنی سردی میں برف بن جاتا ھے، اور لوھا کب پگھلتا ھے؟

لھٰذا اس طرح کی باتیں کہ جب پانی کی حرارت صفر درجہ پر پھونچ جاتی ھے تو پانی برف بن جاتا ھے اور جب سو درجہ پھونچ جاتی ھے تو پانی اُبلنے لگتا ھے ،یہ ایسی حقیقت ھے جو طبیعی اشیاء میں پائی جاتی ھے اور انسان کو کوشش کرنا چاھئے کہ ان حقیقتوں اور قوانین کو جو فیزیکس اور دوسرے سائنسی علوم میں موجود ھیں پھنچانے، ظاھر ھے کہ یہ قوانین پائیدار ھیں اور لامتناھی اور بے شمار ھیں،اورانسان کی علمی ترقی کے ساتھ بھت سارے قوانین معلوم ھونگے، اور ھر علم میں نئے معلومات کے ساتھ سیکڑوں سوال پیدا ھوں گے-

لھٰذا اتنی تعداد میں نئے قانون بھی معلوم ھوں تاکہ ان سوالوں کے جوابات قرار پائیں، اس بنا پر ھر روز سوالوں میں اضافہ ھوتا ھے، اور بشر ان سوالوں کے حل کرنے کےلئے زیادہ سے زیادہ قانون معلوم کرنے میں لگا ھوا ھے، دوسرے لفظوں میں، ھم دنیا کے بے شمار قوانین کے مجموعہ کے حدود میں رھتے ھیں ، عناصر سے مربوط زندہ موجودات اور شیمیائی سے مربوط قوانین اور دوسری چیزیں ھیں جو ابھی تک ھماری عقل سمجھنے سے قاصر ھے-

اب یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ اگر ھم اس دنیا میں بے شمار قوانین کے محدود وتنگ دائرہ میں رھتے ھیں تو پھر ھمارے انتخاب اور اختیار کی کیا اھمیت باقی رہ جاتی ھے؟ یہ سوال بھت زور وشور کے ساتھ اٹھتا ھے اور اس وجہ سے انسان شناسی کے فلسفہ میں یہ بات ذکر ھے کہ انسان کی حقیقت کیا ھے؟ کیا وہ سوفی صد مجبور ھے یا مکمل طور پرمختار ھے یا محدود اور مشروط اختیارات رکھتا ھے، اور اگر اس کے اختیارات محدود اور مشروط ھیں تو ان کی حدود کیا ھیں،اسی طرح دور حاضر میں دنیا کے فلسفی مجلسوں میں قضا وقدر ، جبر وتفویض اور اس طرح کے مسائل بڑی اھمیت کے ساتھ ذکر ھوتے ھیں، اور ان کے بارے میں حسب سابق بحث جاری ھے، ان کے درمیان میں ایک گروہ فلسفھٴ وجودی کا نظریہ رکھتا ھے جو اس بات کا معتقد ھے کہ انسان لامحدود آزادی رکھتا ھے اور اپنی مرضی کے مطابق ھر کام کرسکتا ھے-

جیسا کہ" جان پل سارٹر“ کھتا ھے کہ اگر میں ارادہ کرلوں تو جنگ ویٹنام کی جنگ تمام ھوجائے ! یعنی بشر ایسی طاقت کا مالک ھے کہ اگر ایک شخص ارادہ کرلے تو بھڑکتی ھوئی جنگ جس نے لاکھوں انسانوں کو نابود کردیا ھو روک دے، البتہ یہ بات تعجب خیز ھے، لیکن ایسا نظریہ اُس انسان کے لئے جو ارادہ ونامحدود قدرت کا قائل ھے پایا جاتا ھے-

مذکورہ نظریہ کے مقابلہ میں ایک گروہ انسان کی آزادی کو خیال خام جانتا ھے اور معتقد ھے کہ انسان جبری قوانین کے دائرہ میں زندگی بسر کررھا ھے اور خیال کرتا ھے کہ آزاد ھے آخر کارمذھبی تفکر بھی موجود ھے جو ان دونوں نظریات کے درمیان واسطہ ھے اور انسان کے لئے آزادی کا قائل ھے جو مختلف طرح کے قوانین سے محدود ھے، جوکہ دنیا میں پائے جاتے ھیں یعنی اگر ھم ان قوانین کو جو اس کائنات میں موجود ھیں ان کے لئے دائرہ اور حدود تصور کریں ، تو انسانوں کی آزادی، اس کے حدود کے اندر قابلِ اجرا ھے نہ کا اس سے بڑہ کر-



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next