قانون کے سلسلہ میں نظریاتی میں فرق



اگرچہ دوسرے فرق بھی پائے جاتے ھیں مثلاً اخلاقی قوانین میں یہ ذکر ھوتا ھے کہ امانت کا خیال رکھیں اور اس میں کبھی خیانت نہ کریں، یہ ایک اخلاقی حکم ھے ، اب اگر کوئی امانت میں خیانت کرے تو اخلاقی خلاف ورزی کی وجہ سے سزا یا قید میں نھیں ڈالا جائے گا بلکہ دھوکہ دھڑی کرنے پر قانون سزا کے مطابق اسے خاص سزا دی جائے گی، لھٰذا کوئی ایسا محکمہ ھونا چاھئے کہ جو قانون شکنی کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کرسکے اور طاقت کے ذریعہ ان پر قانون کو لاگو کرسکے، اس لئے قوانین کا لازمہ یہ ھے کہ طاقت کا استعمال کیا جائے کہ جس کے بغیر قوانین حقوقی بے معنی اور بے کار ھیں، لیکن قوانین اخلاقی ایسے نھیں ھیں، اور نہ ھی کسی محکمہ کی ضرورت ھے، مگر یہ کہ حقوقی پھلو رکھتے ھوں، بے شک دین میں ایسے احکام پائے جاتے ھیں جو انسان اور خدا کے درمیان رابطہ کو برقرار کرتے ھیں جیسے نماز، روزہ اور حج وغیرہ یہ احکام فقط ادیان (الھٰی) میں موجود ھیں-

یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ کیا دین میںقوانین حقوقی بھی پائے جانے چاھئے یادین صرف خدا اور بندے کے درمیان رابطہ کو قائم کرنے کے لئے ھے، یہ ایسا شبہ اور سوال ھے جو آج کل وسیع پیمانہ پر یونیورسٹیوں اور ان کی نشریات میں ذکر ھوتا رھتا ھے اور تمام حضرات چاھے وہ یونیورسٹیوں میں رھنے والے ھوں کہ جن سے بلاواسطہ تعلق ھوتا ھے یا ان کے والدین اور رشتہ داورں سے متعلق ھو، ان اعتراضات اور سوالوں کی طرف توجہ کرنا چاھئے ، چاھے یہ باتیں آخر کار طالب علموں اور دانشوروں کے ذریعہ تمام افراد تک پھونچتی ھوںاور ھمارے عمومی تھدیب وثقافت پر اثر انداز ھوتی ھےں، ایک دن یھی جوان طالب علم اپنے ماں باپ کی جگہ لیتے ھیں اور ایک موثر اورنمایاں شخصیت بن کر معاشرہ کے بنیادی افراد میں قرار پاتے ھیں، اب اگر اس وسیع طبقہ کی تھذیب وکلچر بدل جائے تو ایک نسل کے بعد معاشرے کا کلچر پورے طور سے بدل جائے گا، لھٰذا ھمیں ھمیشہ اس بات کی طرف توجہ کرنا ھوگی کہ کون سی تھذیب اس وقت ھمارے معاشرے پر اثر انداز ھے اور رواج پارھی ھے-

9-اسلامی اور خودمختاری کے نظریات میں فرق

دور حاضر میں جو مسائل ذکر ھوتے ھیں ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ھے کہ قانون کو کم سے کم ھونا چاھئے ، یہ ایک خودمختاری نظریہ ھے جو دور حاضر کی دنیا میں پایا جاتا ھے ،اس سلسلہ میں بھت سی بحثیں ھوئی ھیں اور بے شمار کتابیں لکھی گئی ھیں، اسی نظریہ کی بناپر کچھ افراد اس بات کے قائل ھیں کہ حکومت اور قانون ساز حضرات کو انسان کی زندگی اور اس کے امور میں وسیع پیمانے پر دخالت نھیںکرنا چاھئے، کیونکہ جس قدر حکومت کی دخالت کم ھوگی معاشرہ اتناھی زیادہ ترقی کرے گا، البتہ اس نظریہ کے کچھ لوازمات بھی ھیں، جو معاشرے کے دوسرے حالات میں بھی سرایت کرتی ھیں-

مذکورہ نظریہ کا تعلق سماجی آگھی سے ھے اور جامعہ شناسی کے بارے میں پائے جانے والے دو نظریوں میں سے ایک نظریہ پر موقوف ھے:

پھلے نظریہ میں: معاشرہ کو اصل قراردیا گیا ھے، اس بناپر قوانین کو جامع او رھمہ گیر ھونا چاھئے، جو انسانی زندگی کے تمام حالات پر مشتمل ھو، اور شخصی آزادی کم سے کم ھونا چاھئے-

دوسرے نظریہ میں: شخصی زندگی کو اصل قرار دیا گیا ھے اس بناپر انسان کو مکمل آزاد ھوناچاھئے اور سماجی قوانین بھت کم ھونے چاھئیں تاکہ انسان کو کم پابند بناسکے-

آج کل جو بات مغربی معاشرے میں پائی جاتی ھے یھی انفرادی اور شخصی زندگی بسر کرنے کا نظریہ ھے کہ جس سے خود مختاری اور آزاد خیالی کا نظریہ پیدا ھوتا ھے، جونظریہ اس بات کا قائل ھے کہ قوانین کو کم سے کم ھونا چاھئے اور عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ آزادی ھونی چاھئے تاکہ عوام الناس جس چیز پر چاھے عمل کرے-

اسلام کے نظریہ کو پیش کرنے سے پھلے اس نکتہ کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ھوں کہ قانون سے دل چسپی کا موضوع (کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ )علوم انسانی کے چند شعبوں سے مربوط ھے جیسے جامعہ شناسی فلسفھ(یعنی معاشرہ اصل ھے یا شخص اصل ھے) اور فلسفہ اخلاق، اس بات کو سمجھنے کے لئے قدر وقیمت کا معیار کیا ھے؟ کیا اخلاق، قانون پر حاکم ھے یا اخلاق کو، قانون معین کرتا ھے، اسی طرح فلسفہ حقوق اور پھر فلسفہ سیاست میں بھی یھی بحثیں جاری ھیں،اسی نقطہ نظرسے انسان کی زندگی کے تمام پھلو اس کے عاقبت اور انجام سے مربوط ھیں یعنی ھر طرح کی سعی وکوشش اس زندگی میں ھماری ابدی خوش بختی یا بدبختی پر اثر انداز ھوگی-

اسلامی تفکر سے مراد یہ ھے کہ" الدنیا مزرعة الآخرة“ یعنی جو کچھ انسان دنیامیں بوئے گا یا جو رفتار وکردار اپنائے گا ،آخرت میں اس کا نتیجہ ویسا ھی ظاھر ھوگا، اس کی سعادت کا سبب بنے گا یا اس کی شقاوت وبدبختی کا باعث بنے گا، اگر ھم اس نظریہ کو اصل قرار دیں توپھر کیا انسان کی زندگی میں کوئی چیز باقی رھے گی جو قانون کی محتاج نہ ھو؟ یھاں پر قانون کا محتاج ھونا یعنی قانون ھماری راھنمائی کرے کہ انسان کس راستہ کو انتخاب کرے اور کس راہ و روش کو اپنائے تاکہ اپنے مقصودتک پھونچ جائے یعنی اگر معاشرہ امن وسلامتی چاھتا ھے ، تو انسان کسی کی عزت اور مال ودولت پر دست دازی نہ کرے ورنہ اس کی عزت اور مال پر بھی حملہ ھوگا، اور بقول شاعر :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next