قانون کے سلسلہ میں نظریاتی میں فرق



”ان کے دلوں میں مرض تھا ھی ، اب خدا نے ان کے مرض کو اور بڑھا دیا“

وہ انسان جو کسی نشیب میں ھو او روھاں سے تیز دوڑنا چاھے اور اپنے کو کنٹرول نہ کرسکے اور گرپڑے اور اپنی جان کھوبیٹھے، لیکن اگر وہ خود کو صحیح وسالم چاھتا ھے تو اس کو احتیاط کے ساتھ دوڑنا ھوگا، اور اپنے کو اس طرح کنٹرول کرے کہ اگر کسی بلندی سے نیچے کی طرف آبھی رھا ھے اور کوئی خطرناک جگہ آگئی ھے تو وھاں پر رک جائے اور سنبھال کر قدم اٹھائے- معنوی مسائل میں بھی خاص روابط وضبوابط ھیں اور خداکے احکام پر پابندی کرنے سے روح کی سلامتی اور اخروی سعادت ابدی مل جاتی ھے ، اور یہ بات ظاھر ھے کہ ان قوانین پر عمل نہ کرنے سے اس سعادت پر نھیں پھونچ سکتا- البتہ انسان آزاد اور مختار ھے اور یہ کھہ سکتا ھے کہ میں سعادت اور کامیابی نھیں چاھتااور میں جھنم میں جانا چاھتا ھوں ؛تو کسی انسان بھی اس سے کوئی مطلب واسطہ نھیں رکھتا، اور تکوینی انتخاب کا راستہ اس کے لئے ھموار ھے- لیکن اگر خدا کا قرب اور اخروی سعادت چاھتا ھے تو پھر اس کو خدا کے حکم کی پیروی کرنی ھوگی، اور اپنی مرضی نھیں چلے گی، کیونکہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے یا ھوائے نفس کی پیروی گمراھی اور حق وحقیقت سے منحرف ھونے کا سبب ھے:

(اٴَفَرَاٴَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إلٰھہ وَاٴَضَلَّہ اللّٰہ عَلیٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہ وَقَلْبِہ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہ غِشَاوَةً فَمَنْ یَھدِیْہ مِنْ بَعْدِ اللّٰہ اٴَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ-)(3)

”بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواھش کو معبود بنارکھا ھو اور (اس کی حالت) سمجہ بوجہ کر خدا نے اسے گمراھی میں چھوڑ دیا ھو اور اس کے کان اور دل پر علامت مقرر کردی ھے( کہ یہ ایمان نہ لائے گا)اوراس کی آنکہ پر پردہ ڈال دیا ھے ، پھر خدا کے بعد اس کی ھدایت کون کرسکتا ھے تو کیا تم لوگ (اتنا بھی) غور نھیں کرتے“

جو کوئی شخص اگر اپنے نفس اور دل کا تابع ھوگیا ھے تو گونگا اور بھرا ھوجاتا ھے اور حقیقت وواقعیت کو نھیں سمجہ سکتا، اگرچہ بھت زیادہ علم بھی رکھتا ھو، اس کی آنکھوں پر پردہ پڑجاتا ھے جس کی وجہ سے حقیقتیں چھپ جاتی ھیں- اس سلسلہ میں ”بلعم باعورا“ (4)کا واقعہ ھمارے لئے باعث عبرت ھے کہ اتنے علم کے باوجود کہ اپنے زمانہ کے بڑے دانشمندوں میں شمار ھوتا تھا لیکن کس طرح سے پستی کی طرف گرا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے:

(وَاتْلُ عَلَیْھمْ نَبَاٴَ الَّذِیْ ءَ اتَیْنَاہ ءَ ایَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھا فَاٴَتْبَعَہ الشَّیْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِیْنَ …فَمَثَلُہ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إنْ تَحْمِلْ عَلَیْہ یَلْھثْ اٴَوْ تَتْرُکُہ یَلْھثْ-)(5)

”)اے رسول) تم ان لوگوں کو ا س شخص کا حال پڑہ کر سنادو جسے ھم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑا اور آخر کار وہ گمراہ ھو گیا اور اگر ھم چاھتے تو ھم اسے انھیں آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ھی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواھش کا تابعدار بن بیٹھا، تو اس کی مثل اس کتے کی مثل ھے کہ اگر اس کو دھتکارا دو تو بھی زبان نکالے رھے اور اس کو چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رھے“

جی ھاں خدا کی عطا کردہ آزادی سے انسان اتنا بھی گرسکتا ھے ، لیکن اگر انسان سعادت وکامیابی چاھتا ھے تو پھر اس کو مربوط قوانین کی رعایت کرنی ھوگی، اوریہ قوانین ایک طرح کے نھیں ھےں بلکہ مختلف قسمیں ھیں - لھٰذا ضرورت ھے کہ اسلامی احکامات کے چاھنے والے حضرات کو معلوم ھوجائے کہ ھماری زندگی میں کس طرح کے قوانین کی ضروت ھے-

حقوقی قوانین اور اخلاقی قوانین میں فرق

قانون کے نام سے جو چیز ھمارے درمیان مشھور ھے وہ ”حقوقی قانون“ ھے ان قوانین سے مراد ایک طرح کے دستور ھیں جو معتبر مرکز یا اداروں کی طرف سے بنتے ھیں اور وہ ایک طاقت ھے جس کا نام قوہ مجریہ (حکومت) ھے جو ان قوانین کے نفاذ کی ضامن ھوتی ھے اور ضرورت کے وقت پولیس یا فوج کے ذریعہ قوانین کا نفاذ کراتی ھے، اور جرائم کی روک تھام کرتی ھے، حقوقی قوانین عام معنی میں سزاؤں کے قوانین کو بھی شامل ھیں جوکہ علم حقوق میں بیان کئے جاتے ھیں،ایسے موقع پر اگر کوئی یہ کھے کہ حکومت کی ذمہ داری صرف یہ ھے کہ عوام کو بتائے ان سے کھے کہ چوری نہ کریں، کسی کی عزت پر حملہ نہ کریں، تو قطعی طور پر کوئی بھی حکومت اس بات کو تسلیم نھیں کرے گی، اس بات کا مطلب (کہ چونکہ انسان آزاد ھے لھٰذا اگر وہ قوانین حقوقی کی خلاف ورزی کرے تو کوئی اسے سزا نہ دے) یہ ھے کہ حقوقی قوانین کا ھونا یا نہ ھونا برابر ھے، جبکہ قوانین ھونے کا فلسفہ یہ ھے کہ اس کا نفاذ کا کوئی ذمہ دار بھی ھو اور قوانین حقوقی اور قوانین اخلاقی کے درمیان بنیادی فرق یھی ھے -



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next