قانون کے سلسلہ میں نظریاتی میں فرق



پس اب جب کہ یہ بات واضح وروشن ھوچکی ھے کہ ھم لوگ تکوینی لحاظ سے قوانین کے مجموعہ کے تحت واقع ھیں، تو یھاں پر یہ سوال ابھرتا ھے کہ کیا ھم ان قوانین کو توڑنے اور ان کی نافرمانی کرنے کی طاقت رکھتے ھیں ، اور کیا ھم طبیعت کو تسخیر کرسکتے ھیں اور اس کے حدود ودائرے کو توڑسکتے ھیں، اور اس طرح زندگی کریں کہ ھمارے اوپر طبیعی قوانین کی حکومت نہ ھو؟

تو اس کا جواب یہ ھے کہ گذشتہ تصور ایک خیال خام ھے اور سوچا سمجھا نھیں ھے،کیونکہ طبیعت کا تسخیر کرنے کا ملازمہ یہ ھے کہ طبیعت کا کوکئی دوسرا قانون کشف ھو، مثلاً اگر ماھرین ڈاکٹر کسی بیماری پر کنٹرول کرلیتے ھیں یا اس بیماری کو بالکل ختم کردیتے ھیں، طبیعت کے دوسرے قانون کے کشف کرنے کی وجہ سے اور ان سب سے استفادہ کرتے ھوئے اس طرح کی کامیابی ملی ھے، درحقیقت ھم نے طبیعت کو تسخیر نھیں کیا ھے بلکہ اس سے ایک دوسرا قانون کشف کرکے اس سے کامیابی حاصل کی ھے- پس نتیجہ یہ نکلا کہ تکوینی قوانین کے دائرے سے نکلنا محال ھے، لیکن ھم نے جو نئے تکوینی قوانین کو کشف کرکے اس سے استفادہ کیا ھے یہ وھی قوانین الھٰی ھیں جن کو خداوندعالم نے طبیعت میں قرار دیا ھے، اور ان سے خارج ھونا گویا انسان کا خدا کی تکوینی عبادت سے خارج ھونا ھے- بلکہ جیسا کہ ھم نے عرض کیا ھے کہ انسان اپنی محدود دائرے میں رھکر تکوینی قوانین کے مجموعہ میں آمد ورفت کرسکتا ھے، اور مختلف علوم کے قوانین اور تکوینی قوانین جو انسان کے دائرہ اختیار میں ھیں ان سے استفادہ کرے اور ایک قانون کے مقابلہ میں دوسرے قانون سے استفادہ کرے، یعنی یہ محدود دائرہ انسانی اختیار کی حدود کو معین کرتا ھے-

الٰھی اور تشریعنی قوانین، انسان کے کمال اور سعادت کی ضامن ھے

انسان جس قدر بھی انتخاب کی قدرت رکھتا ھے تو کیا جس طرح سے چاھے اس طرح انجام دے سکتا ھے، یا اس کے لئے کوئی ایک حد معین ھے؟ اور کیا اس حد میں بھی کچھ خاص قوانین ھیں کہ جن کو انجام دینا ضروری ھو؟ جواب یہ ھے کہ اس حد میں بھی قوانین معین ھیں البتہ یہ قوانین تکوینی قسم سے نھیں ھیں بلکہ یہ قوانین تشریعی اور اعتباری یا قوانین ارزشی ھیں کہ جن کو قدیم علماء کرام عقل عملی کے دائرہ میں بتا تے ھیں، (ان قوانین کے مقابلے میں کہ جن کا دائرہ عقل نظری ھے) یعنی ھر وہ چیز کہ جو انسان کے اختیار میں ھے اور عقل عملی اس میں فیصلہ دیتی ھے- بے شک تشریعی قوانین پر عمل کرنے سے انسان اپنے آخری مقصد اور کمال نھائی تک پھونچ جاتا ھے ، اور ان کی مخالفت کرنا انسان کو انسانیت کے گرادیتا ھے بلکہ جانور سے بھی بدتر بنادیتا ھے، قرآن مجید اس چیز کی طرف اشارہ کرتا ھے:

(لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِیْ اٴَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ -ثُمَّ رَدَدْنَاہ اٴَسْفَلَ سَافِلیِْنَ- إلاّٰ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَھمْ اٴَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنَ-) (1)

”ھم نے انسان کو بھت اچھے کینڈے کا پیدا کیا ھے پھر ھم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیر دیا مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے (اچھے) کام کرتے رھے ان کے لئے تو بے انتھا اجر وثواب ھے“

جی ھاںانسان میں اتنی صلاحیت ھے اور وہ خدا داد صلاحیتوں کے ذریعہ خدا سے بھت قریب ھوسکتا ھے ، اور خدا کی نافرمانی کرکے انسانیت سے بھی پست تر بلکہ جانور اور حیوان سے بدتر بن سکتا ھے- لھٰذا قوانین تشریعی اور قوانین اعتباری یعنی خدا کی اطاعت یا خدا کی نافرمانی انسان کے اختیار میں ھے، اگر ان قوانین کو قبول کیاتو گویا انسان نے خدا کی اطاعت کی، اورانسان بلند درجات پر پھونچ جائے گا،اور اس کو چین وسکون اور روحی ومعنوی سلامتی مل جائے گی اور اگر اس نے خدا کے نافرمانی کی تو انسانیت سے گرجائے گا، آج کل کے بھداشت اور صفائی کے قوانین کے طرح، کہ اگر ھم نے ان کی رعایت کی تو ھم صحت وسلامتی کی نعمت سے مالا مال رھیں گے اور اگر ھم نے ان قوانین کی رعایت نہ کی تو بیماریوں میں مبتلا ھوجائیں گے-

انسان کے مختار ھونے کے پیش نظر اگر انسان ڈاکٹری قوانین کی رعایت کرتا ھے یا نھیں کرتا ، اگر اپنی صحت وسلامتی کی فکر ھے اور چاھتا ھے کہ صحیح وسالم رھے تو اس کو ڈاکٹری دستورات کی پابندی کرنی ھوگی، او راگر اس کو صحت وسلامتی نھیں چاھئے تو پھر ان قوانین پر عمل کرنا کوئی ضروری نھیں ھے، لھٰذا حقیقت یہ ھے کہ انسان کی صحت وسلامتی کے لئے ڈاکٹری قوانین کی رعایت کرنا ھوگی اور بغیر اس کے صحت وسلامتی ممکن نھیں ھے، البتہ یہ باتیں کوئی زبردستی والی نھیں ھےں؛ کیونکہ ان قوانین کی رعایت کرنا یا نہ کرنا سب کچھ انسان کے اختیار میں ھے، اور اپنے اختیار سے ان قوانین کی رعایت کرکے صحیح وسالم رھتا ھے اور ان کی رعایت نہ کرکے بیمار پڑجاتا ھے اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ھے-

اب تک جو کچھ جسم اور بدن کے بارے میں کھا گیا یہ سب کچھ انسان کی روح کے بارے میں بھی ھے، اور جس طرح انسان کا بدن بیمار ھوتا ھے اسی طرح انسان کی روح بھی بیمار ھوجاتی ھے، روح کی صحت وسلامتی بھی روح سے متعلق قوانین کی رعایت پر موقوف ھے کہ اگر انسان ان قوانین پر عمل کرتا ھے تو معنوی کمال اور سکون وسلامتی اس کو نصیب ھوتی ھے اور اس کے علاوہ انسان کی روح بیمار ھوجاتی ھے،خداوندعالم اس بارے میں ارشاد فرماتا ھے:

(فِیْ قُلُوْبِھمْ مَرَضٌ فَزَادَھمُ اللّٰہ مَرَضاً…) ( 2)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next