قانون کے سلسلہ میں نظریاتی میں فرق



جمھوری حکومت میں قانون کی ضرورت

بنیادی طور پر یہ سوال قوانین کے حدود سے کے بارے میں ھوتا ھے جو کہ قانون سازی کے فلسفہ کے سلسلہ میں مختلف طرح کے نظریات پائے جاتے ھیں کہ جن میں قانون گذاری او ران کے معیار کے بارے میں نظریات بیان کئے جاتے ھیں-

اس سلسلہ میں پائے جانے والے نظریات کے درمیان کہ کس کو قانون گذاری کا حق ھے اور اس کے معیار کیا ھےں، ایک مشھور نظریہ ھے کہ جس کو آج کل کی دنیا میں قبول کیا گیاھے وہ یہ ھے کہ (صرف) وہ لوگ قانون بنانے کا حق رکھتے ھیں جو عوام الناس کی طرف سے منتخب ھوئے ھوں، لھٰذا در حقیقت قانون بنانے کا حق خود عوام الناس کو ھے اور وہ خود عوام الناس ھے جو اپنے لئے قوانین بناتی ھے جو نظام سیاسی اس نظریہ کی بناپر وجود میں آتا ھے اس کو ”ڈیموکراسی“یا ”جمھوریت“ کھتے ھیں -

جمھوریت کو قبول کرنے کے بعد اور اس بات کو قبول کرنے کے بعد کہ قانون سازی کا حق عوام الناس کے منتخب ممبران کی ذمہ داری ھے، یھاں پر یہ سوال ھوتا ھے کہ جو بھی اکثریت (یعنی 51 فی صد ) نمائندوں کے موافق ھو وہ قانون معتبر سمجھا جاتا ھے یا قانون سازی کے لئے دوسرے قوانین بھی ھونے چاھئے، اور پھلے سے ایسے قوانین بنائے جائیں جوقانون سازی کے میدان میں ممبران کے دائرہ عمل کو معین کریں، تو جواب یہ ھے کہ قانون ساز حضرات کے حدود اور حق کو قانون اساسی معین کرتا ھے یعنی قانون اساسی عام قوانین اور وضع شدہ قوانین پر حاکم اور نگراں ھوتا ھے اور قانون سازی کے حدود کے بارے میں فیصلہ کرتا ھے-

یھاں ایک دوسرا سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ مختلف ممالک میں قانون اساسی مختلف ھوتے ھیں اور کم وبیش اس میں تبدیلی ھوتی رھتی ھے اور کبھی کبھی حکومت کے بدلنے سے قانون اساسی بدل جاتا ھے اور کبھی مجلس ادارات تشکیل پاتی ھے جو قانون اساسی کو مکمل اور اس کے نقائص کو دور کرتی ھے، بھرحال جو تبدیلیاں قانون اساسی میں انجام پاتی ھیں ان کے اعتبار سے کوئی ایسا محکمہ پایا جاتا ھے جو قانون اساسی سے بالاتر ھو اور جو قانون اساسی کے حدود کو معین کرے؟ تو اس کا جواب یہ ھے کہ قانون اساسی سے بالاتر محکمھٴ حقوق بشر ھے جس کو کبھی قوانینِ فطری اور حقوق طبیعی سے یاد کیا جاتا ھے کہ جو قانون اساسی پر حاکم ھوتا ھے اور اس کے حدود کو معین کرتا ھے اس لئے کہ مجلس ادارات ھر چیز کو اپنی مرضی کے مطابق قانون میں داخل نھیں کرسکتی-

حقوق بشر کے اعتبار کا معیار

اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ یہ قوانین جو قانون اساسی پر بھی حاکم ھوتا ھے اور قانو ن اساسی کے دائرہ کو محدود ومعین کرتا ھے اور اسکی بناپر قانون اساسی میں تبدیلی واقع ھوتی ھے اس کو کس نے بنایا ھے؟ اور انسانوں کے حقوق جو کہ حقوق بشر کے اشتھارات میں یا فلسفھٴ حقوق کی کتابوں میں ذکر ھوئے ھیں کس شخص کے ذریعہ معین ھوئے ھیں اور ان کے اعتبار کی وجہ کیا ھے؟ تو جواب ملتا ھے کہ بین الاقوامی عرف میں اس کا اعتبار ان لوگوں کی تائید سے ھوتا ھے جنھوں نے اس اشتھار پر دستخط کئے ھیں اور چونکہ اس اشتھار کو دنیا کی تمام حکومتوں کے دستخط (تائید) حاصل ھوتی ھے لھٰذا یہ معتبر ھوجاتے ھیں-

دوسراسوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ جس نے اس اشتھار پر دستخط نھیں کئے ھیں ان کے لئے یہ قوانین قابل اعتبار ھیں یا نھیں؟ اور اگر اعتبار نھیں رکھتے تو کوئی یہ حق نھیں رکھتا ھے کہ ان کی مذمت کرے کہ جن لوگوں نے اس اشتھار پر دستخط نھیں کئے ھیں اور اس پر عمل نھیں کرتے ھیں ان کے بارے میں یہ کھا جائے کہ یہ حقوق بشر کا لحاظ نھیں کرتے ھیں-

دوسرا جواب یہ ھے کہ حقوق بشر کے اشتھارات میں پیش کئے گئے قوانین اور حقوق وضعی قوانین نھیں ھیں کہ جو بنائے جانے کے بعد دوسروں کے دستخط کے ذریعہ قابلِ اعتبار بن جاتے ھیں بلکہ وہ ایسی حقیقی قوانین ھیں جن کو انسان کی عقل معلوم کرتی ھے اورچاھے عوام الناس قبول کرے یا نہ کرے ،وہ قوانین معتبر ھوتے ھیں، البتہ اس زمانے میں کچھ افراد اس طرح کا نظر رکھتے ھیں اور حقوق بشر کو حقیقی امور اور غیر عادی جانتے ھیں، قطعی طور پر زیادہ تر حقوق وسیاست کے فلاسفہ اس طرح کا نظریہ نھیں رکھتے بلکہ اس بات کے قائل ھیں ،کہ یہ قوانین کنوانسیون (Convention) ،اشتھارات اور اعلانات کا اعتبار حکومتوں کے ممبران کے دستخط سے ھوتا ھے اور چونکہ حکومتوں کے ممبروں نے اس پر دستخط کئے ھیں لھٰذا پوری دنیا میں اعتبار رکھتے ھیں-

آخرکار ایک سوال اور اعتراض جو بڑی آب وتاب کے ساتھ ھوتا ھے وہ یہ ھے کہ کیا ضروری ھے کہ تمام حکومتیں ان قوانین کو قبول ھی کریں؟ اور جن لوگوں نے ان قوانین پر دستخط نھیں کئے ھیں ان پر کس طرح یہ قوانین نافذ ھوسکتے ھیں؟ بھرحال اس طرح کے سوال واعتراض کا سلسلہ ختم نھیں ھوگا، اور اس اعتبار سے فلسفھٴ حقوق میں یہ بحث ھوتی ھے کہ قوانین کے اعتبار کا ریشہ اور جڑ کھاں پر ختم ھوتی ھے؟ لیکن ھمارے پاس آسان اور سادہ ساجواب ھے اس لئے کہ ھم دین، اسلام، خدا اور قرآن پر اعتقاد رکھتے ھیں کیونکہ جب ھم یہ کھتے ھیں کہ قوانین حکم خدا کے مطابق ھونے چاھئے ،تو پھر یہ بات ختم ھوجاتی ھے اور کسی سوال کی گنجائش باقی نھیں رھتی-



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next