کیادین سیاست سے جدا ھے؟)مذھبی و غیرمذھبی لوگوں کا نظریہ(



جن لوگوں نے دین کو سیا ست اور حکومت سے ھونے میں غیرمذھبی نظریہ کو انتحاب کیا ھے ،وہ لوگ کھتے ھیں ۔ھم کو قرآ ن سے کوئی مطلب نھیں اور اسلام پر غیرمذھبی نگاہ سے دیکھتے ھیں ،اس سے پھلے کہ ھم اسلامی منابع وماخذ کی تحقیق وبررسی کریں یا یہ دیکھیں کہ قرآن سیاست سے متعلق کیا کھتا ھے ،یہ سوال کرتے ھیں کہ انسان کو دین کی کیا ضروت ھے ؟اور کن مسائل میں اس کو دین کی راھنمائی کی ضروت ھے ؟

انھوں نے اس مسئلہ سے متعلق اپنے خیا ل خام میں دو نظریہ فرض کیئے ھیں ،پھلافرض یہ ھے کہ انسا ن تمام چیزوں میں اور زندگی کے تمام امور میں دین کی ضروت رکھتاھو ،مثلاًکس طریقہ سے غذا آمادہ کی جائے اور کس طرح سے کھائی جائے ،یا کسی طرح مکان بنایا جائے ،شادی بیاہ کے کیا طریقے ھیں اور حکومت اور جامعہ کی تشکیل کو ایک ھی صف میں رکھا ھے ،اور اس طرح کھتے ھیں ، کیا دین کیلئے ضروری ھے کہ ان تمام مسائل کو حل کرے ،اور انسان کو علمی اور دقیق مسائل کی تحقیق کرنے کی کوئی ضروت نھیں ھے ،اور ھم کو اکثر مسائل میں دین کا منتظر نھیں اپنا چائیے کہ ھر چیز کی وضاحت دین ھی سے طلب کریں۔ اس کا مطلب یہ ھے کہ اگر ھم کوئی لباس بنانا چائیں تو پھلے یہ معلوم کریں اسلام کا نظریہ کیا ھے، اور اگرکھانا کھانا چاھیں تو دیکھیں کہ اسلام نے کن کھا نوں کی اجازت دی ھے ،اور اگر بیمار ھوجائیں اور ڈاکڑکے پاس جانا پڑے تو دیکھیں کہ اسلام نے اس سلسلے میں کیا وصیت کی ھے ؟نیز اس طرح اسلام نے حکومت اور سیاست کے بارے میں کیا نظر یہ پیش کیا ھے ۔

دوسرے فرض یہ ھے کہ دین فقط بعض چیزوں میں دخالت رکھتا ھے اور دین سے ھماری تو قعات حداقل در جہ پر ھونی چاھئے اور یہ بات طبیعی ھے کہ دین ھر اعتبار سے انسان کی ضروریات میں نظر نھیں رکھتا ، بلکہ کوئی بھی دین یہ دعویٰ نھیں کرسکتا کہ وہ انسان کی تمام ضروریات پوراکر سکتا ھے ۔

اور جب ھم نے یہ مشاھدہ کرلیا کہ دین ھم کو کھانا بنانا ،علاج کرنا ،ھوائی جھاز اور کشتی بنانا وغیرہ نھیں سکھاتا تو اب ھم کو یہ دیکھنا ھوگا ،وہ مسائل کہ جن کو اپنے سے بیان کیا ھے ان کا دوسرے مسائل سے بھی کیا امتیازھے ،اور اصلا دین نے کس کس میدان میں وارد ھوا ھے ۔

یہ لوگ اپنے خیال خام میں اس نتجہ پر پھونچے کہ ایک دوسری قسم کو لنتخا ب کریں اور وہ یہ ھے کہ دین فقط ان امور میں دنیاوی امور سے کوئی تعلق نھیں۔

اور دین سے ھماری تو قعات کم سے کم ھونی چاھئے اور ھم کو چائیے کہ جن کے ذریعہ فقط ان چیزوں اور طریقوں کو پھچانیں کہ جن کے ذریعہ آخرت میںکا میابی ،جنت میں جانے، دوزخ سے نجات حاصل کی جاسکے ۔جیسے نماز پڑھنا ،روزہ ،رکھنا،حج کو انجام دینا اوردوسرے عبادی امورکو دین سے حاصل کریں ،

ان لوگوں نے اپنے خیا ل خام میں دین وسیاست کے ربط کو اس طرح حاصل کیا ھے کہ دین سیاست سے جدا ھے اور یہ کھا کہ سیاست کا دین سے کو ئی ربط نھیں ھے اور یہ کہ سیا ست کا دائرہ ونیوی امور میں ھے ،اور دین کا دائرہ آخرت سے مربوط ھے ،نہ دین کو سیا ست میں دخالت کرنا چائیے اور نہ ھی سیاست کو دین میں دخالت کرنی چائیے ،

لھٰذا وہ سیاست کہ جس کا تعلق دنیا اور علم سے ھے ،لھٰذا سیاست کو فقط علم اور انسا نی تر قی میں دخالت کا حق ھے چاھے وہ علم فیر کی ھو یا زیت شنا سی روا شناسی ھو یا جامعہ شناسی طب یا دوسرے علوم میں دین کی کوئی دخالت نھیں ھے،اور دین کی دخالت صرف اخروی امدر میں ھے ۔

ان مسائل کا تا ریچہ چند صدی پھلے مغربی ممالک کی طرف پلٹتا ھے کہ جس وقت کلیسائی پا دریوں اور علم وسیاست کے لوگوں کے درمیان اختلاف اور تضاد پیدا ھوا ،اور آپس میں مدتوں تک اسی سلسلے میں جنگ جدال ھو تی رھی ،اور آخرمیں ان کی یہ جنگ وجدال ایک بے لکھی صلح پر تمام ھوئی ،جس میں یہ طے پایاکہ دین فقط آخرت سے تعلق رکھتا ھے دین بھی انسان کا خدا سے رابطہ ،اور دنیا دی کا موں میں دخالت کرنا اھل سیاست اور اصل علم افراد کے سپرد کیا گیا ۔

یہ تمام نظریات مغربی ممالک کے تھے ،لیکن بعد میں جو لوگ ان کے تحت تاثیر قر ار پائے ان کا کھنا ھے کہ ھمارے اسلامی ممالک میں بھی اس طرح تقیم ھونا چاھئے مثا ل کے طورپر اس طرح ھونا چاھئے کہ دین کی باگ ڈورفقط دینی علماء کے ھاتھوں میں ھو اور ان کا نام صرف ضروری کا موں میں حق دخالت ھو ،اور دین یا دینی علماء دنیا وی کاموں کو بالکل دخالت نہ کر یں،لھٰذ ا سیاست کو اھل سیاست حضرات پر چھوڑدیا جائے اور دینی علماء اور فقھاء کو سیاست میں دخالت کا کوئی حق نھیں،اور اس سلسلے میں بھت سی تقرریں ھوئی ، مقالات لکھے گئے ،اور اپنے اس نظریہ کی تائید کیلئے ھر ممکن کوشش کی گئی تاکہ ھمارے جوانوں کے درمیان اس اعتراض کو رائج کریں اور اس نظر یہ کو تقویت پھونچائیں کہ دین سیاست سے جدا ھیں ۔



1 2 3 4 5 6 7 next