کیادین سیاست سے جدا ھے؟)مذھبی و غیرمذھبی لوگوں کا نظریہ(



 

5۔انسان کے کردار کی اھمیت کو سمجھنے میں عقلی طاقت کی شعائیں

ھمارے افعال وکردار کی اھمیت ایجاب وسلب کے لحاظ سے (یعنی ھمارے افعال ورفتارو کردار کے لئے ارزش کا اثبات کرنا یا سلب کرنا) کبھی اتنا واضح وروشن ھوتا ھے کہ جس کو عقل بخوبی سمجھ لیتی ھے اور شارع مقدس کی طرف سے تعبدی بیان کی ضرورت نھیں بلکہ عقل خودھی خداوندعالم کے حکم کو مشخص کرلیتی ھے ۔

اسی وجہ سے فقھاء کرام مستقلات عقلیہ میں فرماتے ھیں: بعض مسائل میں عقل مستقل طور پر فیصلہ کرلیتی ھے اور افعال واعمال کے حُسن وقبح (اچھائی ،برائی) کو معین کرلیتی ھے اور ھم عقل کے ذریعہ سمجھ لیتے ھیں کہ خداوندعالم کا ارادہ فلاں کام کے انجام دینے یا ترک کرنے سے متعلق ھے، ھم عقل کے ذریعہ یہ پتا لگالیتے ھیں کہ خداوندعالم اس کام سے راضی ھے یا نھیں ، ھم سبھی کی عقل اس بات کو سمجھتی ھے کہ کسی یتیم کا مال کھا نابرا ھے،

اور اس سلسلے میں شارع مقدس کی طرف تعبدی بیان آنا ضروری نھیں ھے ، عقل کی تشخیص کے بعد قرآن وحدیث میں بھی اس بارے میں تعبدی بیان آنایہ حکم عقل کی تاکید کے لئے ھے، لیکن اکثر مقامات پر ھماری عقل ھمارے افعال واعمال ورفتار و کردار کی اھمیت اور پھر ان افعال کی ھماری شقاوت وسعادت میں تاثیر کی مقدار کو درک کرنے سے قاصر ھے ، اس طرح کہ ھم اپنے اعمال کے وجوب وحرمت اور استحباب وکراھت کو عقل کے ذریعہ پھچانیں، لھٰذا ایسے مقامات پر دین کو دخالت کرنے کا حق ھے چنانچہ اس وقت دین کو ھمارے اعمال وافعال کے انجام دینے کے احکام بیان کرناھوں گے ۔

 

6۔دین کے حدود

جیسا کہ معلوم ھوچکا ھے کہ وہ چیزیں جو ھماری ھمیشگی سعادت یا شقاوت میں موثر ھیں صر ف ان مسائل میں منحصر نھیں جو براہ راست خداوندعالم سے مربوط ھیں، بلکہ دین ، عبادی مسائل کے علاوہ دنیاوی امور میں بھی حق دخالت رکھتا ھے اسی وجہ سے دین نے بعض کھانے پینے والی چیزوں کو حلال یا حرام ھونے کو بھی بیا ن کیا ھے ۔

اور جب ھم دینی احکامات کو ملاحظہ کرتے ھیں تو اس نتیجہ پرپھونچتے ھیں کہ دینی حدود انفرادی مسائل میں محدود نھیں ھیں بلکہ اجتماعی مسائل مثلاً گھریلو مسائل، شادی، طلاق اور تجارت وغیرہ جیسے مسائل کو بھی شامل ھیں، اور ان مسائل کا حلال وحرام ھونا ان کی اھمیت کو بیان کرتا ھے، درحقیقت دین ان امور کی حقیقت کو بیان کرکے ان کی حرکت کی جھت وسمت معین کرا ھے اور نشان دھی کررھا ھے کہ ان کے ذریعہ کس طرح سے خداوند عالم کی سمت انسان حرکت کرسکتا ھے اور کون سے امور شطان کی طرف مایل ھونے کے اسباب فراھم کرتے ھیں۔

علم بعض چیزوں کے بیان کرنے سے قاصر ھے علم صرف یہ بیان کرتاھے کہ کس چیز کو بنانے کے لئے کن چیزوں کو کس مقدار میں ھونا ضروری ھے اورفیزیکی او ر شیمیائی چیزوں کو بیان کرتا ھے لیکن یہ بیان نھیں کرتا کہ ان چیزوں کو کس طرح استعمال کیا جائے تاکہ انسان حقیقی اور واقعی کمال اور سعادت تک پھونچ سکے، ایسے مقامات پر دین کو قضاوت او رفیصلہ کرنا ھوتا ھے لھٰذا جس طرح ھمارے اعمال ھماری سعادت وبدبختی میں موٴثر ھوتے ھیں اسی طرح سیاسی واجتماعی امور میںھمارے اعمال ھماری سعادت یا بدبختی میں موثر ھوتے ھیں، صرف یھی نھیں بلکہ اس حصے میں اور زیادہ موثر ھوتے ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next