کیادین سیاست سے جدا ھے؟)مذھبی و غیرمذھبی لوگوں کا نظریہ(



اب رھی ھماری اصل گفتگو یعنی ”اجتماعی امور“ کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ معاشرہ اور ملت کا چلانا ھماری سعادت یا بدبختی میں کوئی اثر نھیں رکھتا؟، اوراس معاشرہ کے افراد جس طرح بھی چاھیںمعاشرہ کے ادارے کے لئے جس کو چنیں ،مختار ھیں او ران مسائل میں دین کوئی دخالت نھیں رکھتا؟ کون ھے جو نھیںجانتا کہ معاشرہ میں عدالت او رانصاف کی رعایت سے انسان کی سعادت او رکامیابی ھے اور عدالت وانصاف سے کام لینا ایک بھت مھم اور مثبت پھلو رکھتا ھے اس سلسلہ میں اگر کوئی آیت یا حدیث نہ ھوتی تب بھی ھماری عقل اس بات کو سمجھتی ھے کہ عدالت وانصاف کی رعایت کرنے سے انسانی کمال اور سرفرازی میں شایان شان تاثیر رکھتی ھے ،جوحضرات ان مسائل کو سمجھنے کے لئے عقل کو کافی نھیں سمجھتے،وہ قرآن واحادیث کی طرف رجوع کریں، البتہ ھمارا عقیدہ تو یہ ھے کہ سیاسی واجتماعی امور کے بھت سے مسائل کی اھمیت کو عقل سےسمجھ سکتے ھیں، لیکن اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ جو بھی عقل سمجھیں وہ دین کے دائرے سے خارج ھے ۔

جیسا کہ ھم نے بیان کیا کہ جو چیز مرضی خدا کو کشف کرتی ھے اور جو چیز خدا کی حکمت اور اس کے ارادہ کو بیان کرتی ھے اور ھم کو آگاہ کرتی ھے کہ خدا کی مرضی کیا ھے اس میں کوئی فرق نھیں ھے کہ اس امر کو کس راستہ کے ذریعہ کشف کریں ،بلکہ مھم یہ ھے کہ ھم خداوندعالم کے ارادہ تشریعی کو کشف کریں، چاھے یہ کشف قرآن وسنت کے ذریعہ ھو یا عقل کے ذریعھ، کیونکہ یہ تینوںدلیلیں خدا کے احکام او ردینی قوانین کو کشف کرتی ھیں اسی وجہ سے عقل کو احکام الھٰی کے منابع میں شمار کیا جاتا ھے اور فقھاء کرام نے عقل کو احکام شرعی کے اثبات کرنے والی دلیلوں میں شمار کیا ھے،چنانچہ شرعی مسائل کو ثابت کرنے کے لئے عقل سے بھی تمسک کرتے ھیں، لھٰذا ایسا نھیںھے کہ عقل ا ور شرع کے درمیان کوئی حد موجود ھو کہ کچھ چیزیں عقل سے مربوط ھوں اور کچھ چیزیں شرع سے، بلکہ عقل ایسا چراغ ھے کہ جس کی روشنی میںخدا کی مرضی اور اس کے ارادہ کو تلاش کیا جاسکتا ھے،لھٰذا جو چیز اس طرح عقل کے ذریعہ کشف ھوگی وہ دینی ھے ۔

 

7۔دین اور حکومت میں رابطہ

جو کچھ ھم نے اجتماعی اورسیاسی امور کے بارے میں دین کی دخالت کے سلسلے میں عرض کیا اس پر توجہ رکھتے ھوئے اور مختلف قسم کی حکومتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے جواب تک اس دنیا میں وجود پاچکی ھیں خصوصاً وہ حکومتیں جو اسلام کے نام سے یا اسلامی زمانے میں دوسرے ناموں سے جانی جاتی تھیں، یہ نھیں کھا جاسکتا کہ اسلام ان کے بارے میں مثبت یا منفی نظریہ نھیں رکھتا؟، اگر ھم معاویہ اور یزید کی فاسد اور ظالم حکومت کا حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی عدالت وانصاف ور حکومت سے مقابلہ کریں تو کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ اسلام ان دونوں حکومتوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ھے اور حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کی حکومت میں کوئی فرق نھیں ھے؟

کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ ھر انسان آزاد ھے کہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی حکومت کے طریقہ کار کو اپنائے؟! اور اس میں دین کی کوئی دخالت نہ ھو، اور انسانی کردار اور اس کی سعادت یا بدبختی میں کوئی دخالت نھیں رکھتا، یعنی کیا یہ کھنا صحیح ھے کہ نہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت انسان کی آخرت میں کوئی تاثیر رکھتی ھے اور نہ ھی معاویہ کا کردار انسان کی آخرت میں کوئی اثر رکھتا ھے؟! کیونکہ حکومت کا طریقہ کار دنیا اور سیاست سے تعلق رکھتا ھے اور اس کا دین سے کوئی رابطہ نھیں ھے! کیا کوئی عقلمند انسان ان باتوں کو قبول کرسکتا ھے؟ کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ دین کی نظر میں یہ دونوںحکومتیں(حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کی حکومت) مساوی وبرابر ھیں؟ اور دین ان میں سے کسی ایک کی مدح یا مذمت نھیں کرتا؟ حقیقت یہ ھے کہ اجتماعی اور حکومتی جیسے مسائل میں دین کی دخالت ضروری ھے، دین کو چاھئے کہ حکومت کے لئے مناسب ڈھانچہ پیش کرے ، دین کو بیان کرنا چاھئے کہ حاکم وقت اپنی حکومت کے آغاز ھی سے کمزور اور غریب لوگوں کی فکر میں رھے نہ کہ اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے چکر میں لگا رھے؟!

نتیجہ یہ نکلا کہ دین میںبالخصوص دین اسلام میں سیاسی واجتماعی مسائل کی ایک بڑی اھمیت ھے اور ان کو دین کے دائرہ سے خارج نھیں کیا جاسکتا، اور اس بات کا اعتقاد صحیح نھیں کہ ان سیاسی اور اجتماعی مسائل کا انسان کی شقاوت اور سعادت میںنھیں اگرانسان کا آخرت، حساب وکتاب اور ثواب وعذاب پراعتقاد ھے تو کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ معاویہ اور یزید کی حکومت وہ تاثیر نھیں رکھتی! اگرچہ بعض اھل سنت برادران ، معاویہ کے مسئلہ کو ابھی تک حل نھیں کرسکے ھیں،لیکن تاریخ میں ایسے بھت سے ظالم وجابر افرادگذرے ھیں جنھوں نے تاریخ کے اوراق کو سیاہ کرکے رکھا ھے، کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ ان ظالم وجابر لوگوں کی حکومت، عدالت وانصاف ور افراد کی حکومت کے برابر ھیں؟ اسی زمانہ کو لے لیجئے جس میں ھم زندگی گذاررھے ھیں، کیا وہ حکومتیں جو عورتوں اور بچوں کو جن کو ھر مذھب وملت میں بے گناہ مانا جاتا ھے ان کے سروگردن میں جدائی کریں، ان پر بم گرائیںاور ان کو زندہ درگور کریں، ان حکومتوں کے برابر ھوسکتی ھیں کہ جن کی تمام تر کوشش کمزور او رمظلوم لوگوں کی نجات کے لئے ھوتی ھیں؟ کیایہ دونوں حکومتیں جنت میں جاسکتی ھیں؟ لھٰذا کس طرح سیاسی واجتماعی مسائل کو دین سے خارج مانا جاسکتا ھے؟ اگر یہ طے ھے کہ دین اسلام حلال وحرام ، ثواب وعذاب اور دوسرے دینی مسائل میں اپنی خاص نظر رکھتا ھو توبدرجہ اولیٰ سیاسی واجتماعی مسائل وہ واضح وروشن مسائل ھیں کہ جن میں دین کا نظریہ ضروری ھے ۔

پس نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نظریہ جس میں دینی مسائل کو دنیاوی مسائل سے الگ کیا جاتا ھے او ردینی مسائل کو صرف خدا اورآخرت سے مخصوص کیا جاتا ھے، اور ان کو دنیاوی دائرہ سے خارج مانا جاتا ھے(یعنی انسان کے بعض امور،دانشمندوں اور سیاسی لوگوں پر چھوڑدئے گئے ھیں اور بعض امور، دینی علماء کرام پر چھوڑ دئے گئے ھیں) یہ نظریہ بالکل غلط اور باطل ھے اور کسی بھی طریقہ سے اسلامی نظریہ سے سازگار اور موافق نھیں ھے، اسلام انسان کیلئے جس زندگی کے بارے میں نظریہ رکھتا ھے اور اسلام جس طرز زندگی کو پیش کرتا ھے اور ھمیں اس کی طرف دعوت دیتا ھے اس (گذشتہ)نظریہ سے ھم آھنگ وموافق نھیں ھے ۔

چھوڑئے ان لوگوں کو جو اس طرح کا نظریہ رکھتے ھیں یہ لوگ نہ خدا پر اعتقاد رکھتے ھیں او رنہ ھی قیامت پر، ان کی یہ باتیں صرف اور صرف اس وجہ سے ھوتی ھیں تاکہ علماء دین کو اس میدان سے باھر نکال دیں، لیکن ھم کو ان کے ذاتی عقیدہ سے کوئی مطلب نھیں ھماری عرض تو صرف یہ ھے کہ دنیاوی مسائل کو دینی مسائل سے جدا کرنے کا نظریہ اور دنیاوی مسائل کو دینی حدود سے خارج کرنے کا نتیجہ اسلام کے انکار کاسبب بنتا ھے او راس کے علاوہ کوئی دوسرا نتیجہ نھیں رکھتا، اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ انسان کا کوئی بھی عمل ایسا نھیں ھے جو ھماری سعادت یا بدبختی میںموثر نہ ھو، لھٰذا ھمیں قبول کرنا پڑے گا کہ ھماری تمام زندگی میں دین اپنا نظریہ دے سکتا ھے اور اس کی اھمیت کو بیان کرسکتا ھے ۔جیسا کہ حضرت رسول اکرم(ص) نے فرمایا ھے:

”مامن شیٴ یقرّبکم الی الجنة ویباعدکم عن النار الاّٰ وقدامرتکم بہ ومامن شیٴ یقربکم من النار ویباعدکم من الجنّة الاّٰ وقدنھیتکم عنہ“ (5)



back 1 2 3 4 5 6 7 next