مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی



 Ø¹Ù…رو بن سعید اشدق کا موقف     

جب امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ مکہ سے روانگی اختیار Ú©ÛŒ تو مکہ Ú©Û’ گورنرعمروبن سعید بن عاص[17] Ú©Û’ نمائندوں Ù†Û’ یحيٰ بن سعید [18]Ú©ÛŒ سربراھی میں حضرت پر اعتراض کیا۔ اور سب Ú©Û’ سب امام علیہ السلام سے Ú©Ú¾Ù†Û’ Ù„Ú¯Û’ : اپنے ارادہ سے منصرف Ú¾Ùˆ جائےے! آپ کھاں جارھے ھیں ! امام علیہ السلام Ù†Û’ انکار کیا اور دونوںفریق اپنے اپنے موقف پر ÚˆÙ¹Û’ رھے یھاں تک کہ انھوں Ù†Û’ تازیانہ بلندکر لیا لیکن  امام علیہ السلام اپنی راہ پر گامزن رھے۔ جب امام علیہ السلام Ú©Ùˆ ان لوگوں Ù†Û’ جاتے ھوئے دیکھاتوبلند آوازمیں پکارکر کھا : اے حسین !کیا تم اللہ سے نھیں ڈرتے جو جماعت سے Ù†Ú©Ù„ کر اس امت Ú©Û’ درمیان تفرقہ اندازی کررھے Ú¾Ùˆ ! ان لوگوں Ú©ÛŒ باتیں سن کر امام علیہ السلام Ù†Û’ قران مجید Ú©ÛŒ اس آیت Ú©ÛŒ تلاوت فرمائی : لِیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِےْئُوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِی ءْ٘ مِمَّا تَعْمَلُوْنَ“ [19]Ùˆ[20]

اگر وہ تم کو جھٹلائیں تو تم کہہ دو کہ ھمارا عمل ھمارے لئے اور تمھاری کارستانی تمھارے لئے ھے، جو کچھ میں کرتا ھوں اس کے تم ذمہ دار نھیں اور جو کچھ تم کرتے ھو اس سے میں بری ھوں۔

عبداللہ بن جعفر کاخط   

چوتھے امام حضرت علی بن حسین بن علی (علیھم السلام )کا بیان Ú¾Û’ کہ جب Ú¾Ù… مکہ سے Ù†Ú©Ù„ رھے تھے تو عبداللہ بن جعفربن ابیطالب [21]Ù†Û’ ایک خط Ù„Ú©Ú¾ کر اپنے دونوں فرزندوں عون Ùˆ محمد [22]Ú©Û’ ھمراہ روانہ کیا جس Ú©ÛŒ عبارت یہ Ú¾Û’:” امابعد ØŒ فانّی اٴساٴلک باللّہ لمّا انصرفت حین تنظر فی کتابی فانّی مشفق علیک من الوجہ الذی تتوجہ لہ اٴن یکون فیہ ھلاکک واستئصال اھل بیتک ØŒ اٴن ھلکت الیوم طفیٴ نور الارض فانک علم المھتدین ورجاء الموٴمنین، فلا تعجل بالسیر فانّی فی اٴثر الکتاب؛  والسلام “

اما بعد : جب آپ Ú©ÛŒ نگاہ میرے خط پر Ù¾Ú‘Û’ تو میری آپ سے درخواست Ú¾Û’ کہ آپ اپنے ارادہ سے منصرف Ú¾Ùˆ جائےے ؛کیو نکہ آپ Ù†Û’ جس طرف کا رخ کیا Ú¾Û’ مجھے خوف Ú¾Û’ کہ اس میں آپ Ú©ÛŒ  ھلا کت اور آپ Ú©Û’ خاندان Ú©ÛŒ اسیری Ú¾Û’ اور اگر آپ دنیا سے گذرگئے تو زمین کا نور خاموش Ú¾Ùˆ جا ئے گا؛ کیوںکہ آپ ھدایت یافتہ افراد Ú©Û’ پر چمدار اور مو منین Ú©ÛŒ امید ھیں؛ لہٰذا آپ سفر میں جلدی نہ کریں۔ میں اس خط Ú©Û’ پھنچتے پھنچتے آپ Ú©ÛŒ خدمت میں شر فیاب Ú¾Ùˆ رھا Ú¾ÙˆÚºÛ” والسلام

عبد اللہ بن جعفر اس خط کے فوراًبعد عمرو بن سعید بن عاص کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کرتے ھو ئے کھا : حسین ( علیہ السلام) کو ایک خط لکھو جس میں تم ان کے امن وامان کا تذکرہ کرو ، اس میں ان سے نیکی اور صلہ رحم کی تمنا وآرزو کرو اور اطمینان دلا وٴ، ان سے پلٹنے کی درخواست کرو، شائد وہ تمھاری باتوں سے مطمئن ھو کر پلٹ آئیں اور اس خط کو اپنے بھائی یحيٰ بن سعید کے ھمراہ روانہ کرو؛ کیو نکہ وہ زیادہ سزاوار ھے کہ اس سے وہ مطمئن ھوں اور ان کو یقین ھو جا ئے کہ تم اپنے قصد میں مصمم ھو۔عمر وبن سعید نے عبد اللہ بن جعفر کو جواب دیتے ھو ئے کھا : تم جو چا ھتے ھو لکھ کر میرے پاس لے آوٴ میں اس پر مھر لگا دوں گا، بنابر یں عبد اللہ بن جعفر نے اس طرح نامہ لکھا :

بسم اللہ الر حمن الر حیم ،یہ خط عمر وبن سعید کی جانب سے حسین بن علی کے نام ھے ۔

اما بعد : میں خدا وند متعال سے در خواست کر تا ھوں کہ آپ کو ان چیزوں سے منصرف کر دے جس میں آپ کا رنج و ملال ھے اور جس میں آپ کی ھدایت ھے اس طرف آپ کو سر فراز کرے ۔مجھے خبر ملی ھے کہ آپ نے عراق کا رخ کیا ھے ۔

خداوند عالم آپ کو حکومت کی کشمکش او رمخالفت سے محفو ظ رکھے؛ کیونکہ مجھے خوف ھے کہ اس میں آپ کی ھلاکت ھے۔ میں آپ کی طرف عبداللہ بن جعفر اور یحيٰبن سعید کوروانہ کررھا ھوں ؛آپ ان دونوں کے ھمراہ میرے پاس تشریف لے آئےے کیونکہ میرے پاس آپ کے لئے امان ، صلہ رحم ، نیکی اورخانہ خداکے پاس بھترین جائےگاہ ھے۔ میں خداوند عالم کو اس سلسلے میں گواہ ، کفیل ، ناظر اور وکیل قر ار دیتاھوں ۔ والسلام

خط لکھ کر آپ اسے عمر و بن سعید کے پاس لے کر آئے اور اس سے کھا: اس پر مھر لگاوٴ تواس نے فوراًاس پر اپنی مھر لگادی اور اس خط کو لے کرعبداللہ بن جعفر اور یحيٰ امام علیہ السلام کی طرف روانہ ھوئے اور وھاں پھنچ کر آپ کی خدمت میں یحيٰ بن سعیدنے خط پڑھا تو امام حسین علیہ السلام نے عمر و بن سعید کو خط کا جواب اس طرح لکھا:

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next