مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی



[8] امام حسین علیہ السلام کے اس جملہ میں کلمہ ”ناصح “ خلوص و اخلاص کے معنی میں استعمال ھواھے، موعظہ اور نصیحت کے معنی میںاستعمال نھیں ھوا ھے ۔ اس لفظ کے لئے یہ معنی جدید اور نیا ھے، اس کا اصلی معنی نھیں ھے، امام فرمارھے ھیں کہ وہ جانتے ھیں کہ ابن عباس کی گفتار میں خلوص و شفقت اور محبت و عطوفت پنھاں ھے۔ اس سے انداہ لگایا جا سکتا ھے کہ ابن عباس امام علیہ السلام کے قیام کے مخالف نہ تھے بلکہ وہ اس شک وتردید میں تھے کہ قیام کے لئے حالات سازگار اور مناسب ھیں یا نھیں اور امام علیہ السلام نے بھی اس سلسلے میں ان کی بات کو رد نھیں کیا بلکہ فرمایا کہ اس کے باوجود بھی وہ قیام کے لئے عازم ھیں کیونکہ وہ اس قیام کو شریعت مقدسہ کی زندگی کے لئے لازم اورضروری سمجھتے ھیں۔

[9] ابو مخنف کا بیان ھے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ھے۔ (طبری ج۵، ص ۳۸۳ )

[10] یہ ÙˆÚ¾ÛŒ شخص Ú¾Û’ جسے مختار Ú©Û’ عھد حکومت میں عبداللہ بن زبیر Ù†Û’ Û¶Û¶Ú¾ میں کوفہ کا والی بنادیا تو مختار Ù†Û’ زائدہ بن قدامہ ثقفی Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ پاس پانچ سو (ÛµÛ°Û°) سپاھیوں اور ستر (Û·Û°) ہزار درھم  Ú©Û’ ساتھ روانہ کیا تا کہ وہ ان درھموں Ú©Û’ مقابلہ میں مختار Ú©Û’ لئے کوفہ Ú©ÛŒ گورنری چھوڑدے اور اگر وہ اس پر راضی نہ Ú¾Ùˆ تو پھر ان سپاھیوں سے نبرد آزماھوجائے۔ عمر بن عبد الرحمن Ù†Û’ وہ درھم قبول کر لئے اور ر ا Ú¾ÛŒ Ù´ بصرہ ھوگیا۔ (طبری، ج۶،ص Û·Û± ) اب رھا امام علیہ السلام Ú©ÛŒ مدح Ùˆ ثنا کا سوال تو اس روایت کا ناقل خود یھی شخص Ú¾Û’Û” اس کا دادا حارث بن ھشام اور اس کا بھائی جھل بن ھشام دونوں Ú¾ÛŒ رسول خدا صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم Ú©Û’ دشمن تھے۔ Ú¾Ù… Ù†Û’ اس کا تذکرہ مقدمہ میں کیاھے۔

[11] ھوٍ یعنی ھا ویا جس کی اصل ھویٰ ھے جس کے معنی برا ارادہ رکھنے والے کے ھیں ۔

[12] طبری،ج۵،ص۳۸۲،ھشام نے ابومخنف کے حوالے سے کھا ھے کہ مجھ سے صقعب بن زبیر نے عمر بن عبد الر حمن کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ھے ۔

[13] ابو مخنف کا بیان ھے کہ ابو جناب یحيٰبن ابی حیہ نے عدی بن حرملہ اسدی سے، اس نے عبد اللہ سے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔ (طبری، ج۵ ،ص ۳۸۴)

[14] الکبش : اس نر بکر ے کو کھتے ھیں جو عام طور پر گلہ کے آگے رھتا ھے۔ یہ درواقع تشبیہ ان لوگوں کے لئے ھے جو کسی امر کی قیادت کرتے ھیں۔ اس حدیث کے ذریعہ سے امام علیہ السلام نے ابن زبیر کو یاد دلا یا کہ شاید یاد آوری اس کو فائدہ پھنچا ئے لیکن یاد آوری تو مو منین کے لئے نفع بخش ھو تی ھے۔ ”فان الذکری تنفع المو منین “

[15] ابو مخنف کا بیان ھے کہ ابو سعیدعقیصانے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ھے کہ وہ کھتے ھیں ۔۔۔۔( طبری ،ج۵،ص۳۸۵)

[16] یہ وہ بھترین جواب Ú¾Û’ جو امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ تمام سوالو Úº Ú©Û’ جو اب میں بھت مختصرطور پردیاھے کہ بھر حال بنی امیہ Ú©Ùˆ  حضر ت Ú©ÛŒ تلاش Ú¾Û’ Ø› آپ جھاں کھیں بھی Ú¾ÙˆÚº وہ آپ پر ظلم Ùˆ ستم کریں Ú¯Û’ پس ایسی صورت میں لازم Ú¾Û’ کہ آپ فوراً مکہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیں تاکہ آپ Ú©ÛŒ مثال بکری Ú©Û’ اس گلہ Ú©Û’ بکرے Ú©ÛŒ جیسی نہ ھوجائے جو آگے آگے رھتا Ú¾Û’ جس کا ذکر آپ Ú©Û’ والد حضرت امیر المومنین(علیہ السلام)   Ù†Û’ کیا تھا۔ اسی خوف سے آپ فوراً Ù†Ú©Ù„ گئے کہ کھیں آپ Ú©ÛŒ اور آپ Ú©Û’ خاندان Ú©ÛŒ بے حرمتی نہ ھوجائے اور ادھر اھل کوفہ Ú©ÛŒ دعوت کا جواب بھی ھوجائے گا جو آپ Ú©Û’ لئے ان پر اتمام حجت Ú¾Ùˆ Ú¯ÛŒ تا کہ یہ الزام نہ آئے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا Ú©Û’ بعد امت Ú©Û’ لئے کوئی حجت نہ تھی اور لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ اللہ Ú©ÛŒ جانب سے تو پیغمبروں Ú©Û’ بعد ھمارے لئے کوئی حجت Ú¾ÛŒ نہ تھی۔”لئلا یکون للناس علی اللّٰہ حجة بعدالرسول“ ( سورہ ٴنساء / Û±Û¶Ûµ)اور تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے  :” لولا اٴرسلت الینا رسولاٴ منذراًو اٴقمت لنا علماً ھادیاً فنتبع آیاتک “ تو Ù†Û’ Ú¾Ù… تک ڈرانے والا کوئی پیغمبر کیو Úº نہ بھیجا اور ھمارے لئے کوئی ھدایت کرنے والی نشانی کیوں نہ قائم Ú©ÛŒ تاکہ Ú¾Ù… تیری نشانیوں Ú©ÛŒ پیروی کر تے۔اھم بات یہ Ú¾Û’ کہ اس وحشت وخوف Ú©Û’ ماحول میں کوفہ نہ جاتے تو اور کھاں جاتے؛ جب کہ زمین اپنی وسعتوں Ú©Û’ باوجود آپ پر تنگ کردی گئی تھی Û”

[17] جب عمر Ùˆ بن سعید مدینہ کا والی ھوا تو اس Ù†Û’ عبیداللہ بن ابی رافع جو امام علی بن ابیطالب(علیہ السلام)  Ú©Û’ کاتب تھے،کو بلایا اور ان سے پوچھا: تمھارامولا کون Ú¾Û’ ØŸ انھوں Ù†Û’ جواب دیا : رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم )(یہ ابو رافع ،ابوا حیحہ سعید بن عاص اکبر Ú©Û’ غلام تھے جو سعید بن عاص Ú©Û’ بےٹوں Ú©Ùˆ میراث میںملے تھے۔ ان میں سے تین بےٹوں Ù†Û’ اپناحصہ آزاد کردیا اور یہ سب Ú©Û’ سب جنگ بدر میں مارڈالے گئے اورایک بےٹے خالد بن سعید Ù†Û’ اپنا حصہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا Ú©Ùˆ ھبہ کردیا تو آ Ù¾ Ù†Û’ اسے آزاد کر یا ) یہ سنتے Ú¾ÛŒ اس Ù†Û’ سو Ú©ÙˆÚ‘Û’ لگائے پھر پوچھا تیرا مالک ومولا کون Ú¾Û’ ØŸ انھوں Ù†Û’ پھر جواب دیا :ر سول خدا ! تو اس Ù†Û’ پھر سو Ú©ÙˆÚ‘Û’ لگائے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رھا، وہ پوچھتا جاتا تھا اور یہ جواب میں کھتے جاتے تھے: رسول خدا صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم اور وہ Ú©ÙˆÚ‘Û’ برسائے جاتاتھا یھاں تک کہ پانچ سو Ú©ÙˆÚ‘Û’ مارے اور پھر پوچھاکہ تمھارامولا Ùˆ مالک کون Ú¾Û’ØŸ تو تاب نہ لاکرعبیداللہ بن ابورافع Ù†Û’ کہہ دیا :تم لوگ میرے مالک Ùˆ مختار Ú¾Ùˆ ۔یھی وجہ Ú¾Û’ کہ جب عبدالملک Ù†Û’ عمرو بن سعید Ú©Ùˆ قتل کیا تو عبیداللہ بن ابی رافع Ù†Û’ شعر میں قاتل کا شکریہ اداکیا۔( طبری ،ج۳، ص Û±Û·Û° )

عمرو بن سعیدنے ابن زبیر سے جنگ کی۔ ( طبری ØŒ ج۵،ص Û³Û´Û³ ) اور جو بھی ابن زبیر کا طرفدار تھا اسے مدینہ میں مارڈالاتھا ۔جن میں سے ایک محمد بن عمار بن یاسر تھے۔اس Ù†Û’ ان میں سے چالیس یا پچاس یا ساٹھ لوگوں کوماراھے Û”( طبری ،ج۵ ،ص Û³Û´Û´ ) جب اس تک امام حسین علیہ السلام Ú©ÛŒ شھادت Ú©ÛŒ خبر Ù¾Ú¾Ù†Ú†ÛŒ تو اس Ù†Û’ خوشیاں منائیں اور جب بنی ھاشم Ú©ÛŒ عورتوں کا بین سنا تو Ú©Ú¾Ù†Û’ لگا کہ یہ بین عثمان Ú©Û’ قتل پر انکے گھر Ú©ÛŒ عورتوں Ú©Û’ بین کا جواب Ú¾Û’ پھر یہ منبر پر گیا اور لوگوں Ú©Ùˆ اس سے باخبر کیا Û” اس Ú©Û’ بعد یزید Ú©Ùˆ معلوم ھوا کہ عمرو بن سعید ØŒ ابن زبیر سے رفق Ùˆ محبت سے پیش آرھاھے اور اس پر تشدد نھیںکر رھاھے تو یکم Ø°ÛŒ الحجہ Û¶Û±Ú¾ Ú©Ùˆ اسے معزول کردیا۔      ( طبری ،ج۵ ،ص۴۷۷ ) تو یہ اٹھکر یزید Ú©Û’ پاس آیااور اس سے معذرت خواھی کی۔ ( طبری ،ج۵،ص Û´Û·Û¹) اس کاباپ سعید بن عاص ØŒ معاویہ Ú©Û’ زمانے میں مدینہ کا والی تھا۔ (طبری، ج۵ ØŒ ص۲۴۱)

[18] یہ عمرو بن سعید کابھائی ھے۔اس نے شام میںعبدالملک کے دربار میں ان ایک ہزار جوانوں کے ساتھ اپنے بھائی کی مدد کی جو اس کے ساتھی اور غلام تھے لیکن آخر میں وہ سب بھاگ گئے اور اسے قید کر لیا گیا پھر آزاد کردیا گیا تو یہ ابن زبیر سے ملحق ھو گیا۔ ( طبری، ج۶،ص ۱۴۳، ۱۴۷) پھر کوفہ روانہ ھوگیا اور اپنے مامووٴں کے پاس پناہ لی جو جعفی قبیلہ سے متعلق تھے۔جب عبدالملک کوفہ میں داخل ھوا اور لوگوں نے اس کی بیعت کرنا شروع کردی تو اس نے بھی اس کی بیعت کر لی اور امن کی درخواست کی۔ (طبری ،ج۶ ، ص ۱۶۲)

[19] سورہ ٴیونس / ۴۱

[20] طبری، ج۵، ص ۳۸۵،ابو مخنف کا بیان ھے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ھے ۔

[21] آپ جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر میں تھے اور عائشہ کو مدینہ پھنچانے میں آپ نے آنحضرت کی مدد فرمائی تھی ۔( طبری، ج۴، ص۵۱۰)آپ کی ذات وہ ھے جس سے حضرت امیر المومنین کوفہ میںمشورہ کیا کرتے تھے۔ آ پ ھی نے حضرت کو مشورہ دیا تھا کہ محمد بن ابی بکر جو آپ کے مادری بھائی بھی تھے، کو مصر کا والی بنادیجئے۔ (طبری ،ج۴، ص ۵۵۴)آپ جنگ صفین میں بھی حضرت علی علیہ السلام کے ھمراہ تھے اور آپ کے حق میں بڑھ بڑھ کر حملہ کررھے تھے۔ ( طبری ،ج۵ ، ص ۱۴۸)بنی امیہ کے خلاف امام حسن علیہ السلام کے قیام میں بھی آپ ان کے مدد گار تھے ( طبری ،ج۵،ص ۱۶۰) اور جب صلح کے بعد سب مدینہ لوٹنے لگے تو دونوں اماموں کے ھمراہ آپ بھی مدینہ لوٹ گئے۔ ( طبری ،ج۵ ، ص ۱۶۵) آپ کے دونوں فرزند عون و محمد امام حسین علیہ السلام کے ھمراہ تھے۔ جب آپ تک ان کی شھادت کی خبر پھنچی تو آپ نے فرمایا : ”واللّہ لو شھدتہ ،لاٴ حببت الّا اٴفارقہ حتی اٴقتل معہ“ خداکی قسم اگر میں موجود ھوتا تو واقعاً مجھے یہ محبوب تھا کہ میں ان سے جدا نہ ھوں یھاں تک کہ ان کے ھمراہ قتل ھوجاوٴں۔ ( طبری ج۵ ، ص ۴۶۶ )

[22] یہ دونوں امام حسین علیہ السلام کے ھمراہ کربلامیںجام شھادت نوش فرماکرسرفراز ھوئے۔ طبری کے بیان کے مطابق عون کی ماں جمانہ بنت مسیب بن نجبہ بن فزاری ھیں( مسیب بن نجبہ توابین کے زعماء میںشمار ھوتے ھیں ) اور محمد کی ماںخو صاء بنت خصفہ بنت ثقیف ھیں جو قبیلہ بکربن وائل سے متعلق ھیں ۔

[23] ابو مخنف کا بیان ھے کہ حارث بن کعب والبی نے علی بن الحسین (علیھما السلام ) کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ھے۔ (طبری ،ج۵،ص۳۸۸)

[24] امام علیہ السلام یہ مناسب نھیں دیکھ رھے تھے کہ اپنے سفر Ú©Û’ رازسے سب Ú©Ùˆ آشنا کر تے کیو نکہ انسان جوکچھ جا نتا Ú¾Û’ وہ سب بیان نھیں کر دیتا Ú¾Û’ خصوصاً جبکہ انسان ظرف Ùˆ جودکے لحاظ سے مختلف Ùˆ متفاوت ھوںاور امام علیہ السلام پر واجب Ú¾Û’ کہ ھر شخص Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ وجود Ú©ÛŒ وسعت اور معرفت Ú©ÛŒ گنجا ئش Ú©Û’ اعتبار سے آشنائی بھم پھنچائیں، اسی لئے امام علیہ السلام Ù†Û’ ان لوگوں Ú©Ùˆ ایک واقعی    جو اب دیدیا کہ” لم یشا قق اللہ ورسولہ من دعا الی اللّٰہ وعمل صالحاً ۔۔۔وخیر الا مان اٴمان اللّٰہ Ùˆ  لن یوٴمن اللّٰہ یوم القیامةمن لم یخفہ فی الدنیا فنساٴل اللّٰہ مخافةفی الدنیا تو جب لنا اٴما نہ یوم القیامہ “



back 1 2 3 4 5 6 7 8