مکہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی





[1] طبری کا بیان Ú¾Û’ کہ اسی سال Û¶Û°Ú¾ ماہ رمضان میں یزیدنے ولید Ú©Ùˆ معزول کر Ú©Û’ اس Ú©ÛŒ جگہ پر عمرو بن سعید بن عاص اشدق Ú©Ùˆ مدینہ کا امیر بنا دیا Û” عمرو ماہ رمضان میں وھاں پھنچا ۔یہ شخص بھت بڑا کینہ توز اور بھت بولنے والا تھا (طبری ،ج۵، ص Û³Û´Û³) بعض روایتوں میں Ú¾Û’ کہ ماہ Ø°ÛŒ قعدہ  Û¶Û°Ú¾ میں مدینہ آیا تھا (طبری ،ج۵،ِ ص Û³Û´Û¶)پھر طبری کا بیان Ú¾Û’ کہ یزید بن معاویہ Ù†Û’ اسی سال (  Û¶Û° Ú¾ ) ولید بن عتبہ Ú©Ùˆ مکہ Ú©ÛŒ ریاست سے بھی معزول کر دیااور ان دونوں Ú©ÛŒ ریاست عمروبن سعید بن عاص Ú©Û’ سپرد کر دی۔ یہ رمضان کا مھینہ تھا۔ اسی سال عمرو بن سعید Ù†Û’ لوگوں Ú©Û’ ساتھ حج بھی انجام دیادرحالیکہ وہ مکہ اور مدینہ کا حاکم تھا۔ (طبری، ج۵، ص Û³Û¹Û¹)

[2] ابو مخنف کا بیان ھے کہ مجھ سے عبدالرحمن بن جندب نے روایت کی اور عبدالرحمن کا بیان ھے کہ مجھ سے عقبہ بن سمعان نے یہ روایت بیان کی ھے جو امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب بنت امرء القیس کا غلام تھا۔ (طبری ،ج۵ ،ص ۳۵۱)

[3] ابومخنف کا بیان ھے کہ حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے مجھ سے یہ روایت بیان کی ھے (طبری، ج۵، ص ۳۸۲)

[4] واقعیت یہ Ú¾Û’ کہ عبداللہ بن زبیرکو کوفیوں Ú©ÛŒ منافقت اور نیرنگ Ùˆ دھوکہ بازی کا خوف نھیں تھا بلکہ وہ اپنے مقصد تک پھونچنے Ú©ÛŒ فکرمیں تھا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام بھی اس Ú©Û’ ظرف وجود اور روحی Ùˆ فکری گنجایش میں اتنی وسعت نھیں دیکھ رھے تھے کہ انجام Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ لئے بیان کردیں؛ کیونکہ عقل مند آدمی ھر اس چیز Ú©Ùˆ بیان نھیں کر تا جس Ú©Ùˆ وہ جانتاھے اور دوسروں Ú©Ùˆ تمام واقعات سے رو شناس نھیں کراتا۔لوگوں Ú©Û’ افکار اور ان Ú©ÛŒ صلاحیتیں مختلف ھوتی ھیں اور بھت سارے افراد اپنے وجود میں اس بات Ú©ÛŒ توانائی نھیں رکھتے کہ بھت سارے حقائق سے آگاہ ھوسکیں، اسی بنیاد پر امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ ابن زبیر Ú©ÛŒ فکری صلاحیت Ú©Ùˆ دیکھتے ھوئے ان Ú©Û’ مطابق انھیں جواب دیا۔دوسری اھم بات یہ Ú¾Û’ کہ ابن زبیر Ú©Ùˆ امام حسین علیہ السلام  Ú©Û’ قیام سے ذرہ برابر بھی اختلاف نھیں تھا بلکہ وہ امام Ú©Ùˆ قیام Ú©ÛŒ ترغیب دلا رھا تھا،بحث فقط زمان Ùˆ مکان Ú©Û’ بارے میں تھی Û”

[5] چونکہ مکہ سے امام حسین علیہ السلام Ú©ÛŒ روانگی Ú©ÛŒ تاریخ Û¸/Ø°ÛŒ الحجہ یوم الترویہ بعدازظھر Ú¾Û’ اور یہ وہ وقت Ú¾Û’ جب لوگ منی Ú©ÛŒ طرف جارھے ھوتے ھیں(طبری، ج Ûµ ،ص۳۸۵ )اس سے اندازہ ھوتاھے کہ ابن عباس اور امام علیہ السلام Ú©Û’ درمیان یہ گفتگو Û¶/Ø°ÛŒ الحجہ Ú©Ùˆ انجام پذیر ھوئی Ú¾Û’ اور اس خبر کامشتھر ھونااس گفتگو سے زیادہ سے زیادہ دو دن Ù¾Ú¾Ù„Û’ Ú¾Û’ یعنی Û´/Ø°ÛŒ الحجہ Ú©Ùˆ یہ خبر پھیل گئی کہ امام علیہ السلام مکہ ترک کرنے Ùˆ الے ھیں؛لیکن اس سے قبل اس خبر Ú©Û’ مشتھر ھونے Ú©ÛŒ کوئی دلیل موجود نھیں Ú¾Û’Û” سوال یہ پیداھوتاھے کہ وہ کون ساسبب Ú¾Û’ جس Ú©ÛŒ بنیاد پر اتنے دن مکہ میںرھنے Ú©Û’ بعد عین حج Ú©Û’ دن حج تما Ù… ھونے سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ Ú¾ÛŒ امام حسین علیہ السلام Ù†Û’ مکہ چھوڑدیا؟اگر یہ کھا جائے کہ جناب مسلم بن عقیل Ú©Û’ خط Ú©ÛŒ بنیاد پر جلدی کی، کیو نکہ اس میںمرقوم تھاکہ خط ملتے Ú¾ÛŒ فوراًروانہ Ú¾Ùˆ جائےے تو یہ صحیح نھیں Ú¾Û’ کیو نکہ جناب مسلم بن عقیل Ù†Û’ اپنی شھادت سے Û²Û·/دن قبل یعنی Û² Û± /یا۱۳/Ø°ÛŒ القعدہ Ú©Ùˆ امام حسین علیہ السلام Ú©Ùˆ خط لکھاھے۔ ایسی صورت میں تقریباً دس(Û±Û°) دن Ú©Û’ اندر یعنی Û²Û·/ Ø°ÛŒ قعدہ تک یہ خط امام علیہ السلام Ú©Ùˆ موصول ھوچکا تھالہذا اگر امام علیہ السلام Ú©Ùˆ سفر کرنا Ú¾ÛŒ تھا تو انھیں دنوں میں سفر کر لیتے ۔یہ Û´/دن قبل خبر کا مشتھر ھونا اور عین حج Ú©Û’ موقع پر سفر کرنے کا راز کیا Ú¾Û’ ØŸ اس کا جواب ھمیں فرزدق Ú©Û’ سوال Ú©Û’ جواب میں ملتا ھے،جب راستے میں فرزدق شاعر Ú©ÛŒ ملاقات   امام حسین علیہ السلام سے ھوئی تو اس Ù†Û’ بھی امام علیہ السلام سے یھی سوال کیا کہ اتنی جلدی کیا تھی کہ آپ حج چھوڑکر جارھے ھیں ØŸ

کررھے تھے ادھر حجاج کرام حج کے لئے مکہ سے منیٰ کی طرف جارھے تھے ۔ ذی الحجہ میں جو حج نہ کرنا چاھے اس کے لئے کوئی مشکل نھیں ھے کہ عمرہ انجام دے لے۔

اسی طرح ابراھیم بن عمر یمانی نے روایت کی ھے کہ انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو ایام حج میںعمرہ انجام دے کر باھر آجائے او روھاں سے ا پنے شھر کی طرف نکل جائے تو اس کا حکم کیا ھے ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا: کوئی مشکل نھیں ھے پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ھوئے فرمایا : امام حسین علیہ السلام عمرہ انجام دے کر یوم الترویہ مکہ سے روانہ ھوئے تھے۔(وسائل، ج۱۰ ،ص ۲۴۶)

یھی وجہ ھے کہ شیخ شوشتری نے فرمایا : دشمنوں نے پوری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کو پکڑ لیں یا دھوکہ سے قتل کردیں،خواہ آپ کعبہ کی دیوار سے لپٹے ھوں۔ امام علیہ السلام ان کے باطل ارادہ سے آگاہ تھے لہٰذا اپنے احرام کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کر دیا اور حج تمتع ترک کردیا۔ ( الخصائص، ص ۳۲،ط تبریز)شیخ طبرسی نے اعلام الوریٰ کی ایک خاص فصل میں امام علیہ السلام کے سفر کے واقعہ اور آپ کی شھادت کا تذکرہ کیا ھے۔ وھاں پر آپ نے ارشاد میں موجودشیخ مفید ۺکی عبارت کوتقریباًبعینہ ذکر کیا ھے اوراس کی تصریح بھی نھیں کی ھے۔ اس فصل میں آپ نے انھیں باتوں کو ذکر کیا ھے جسے شیخ مفید ۺ نے لکھا ھے۔ھاں وھاں کلمہ ” تمام الحج“کے بجائے” اتمام الحج “کردیاھے جو غلط ھے اور شاید نسخہ برداروں کی خطا ھے۔ اس خطا کا سبب یہ ھے کہ ان دونوں کلمات میں بڑا فرق ھے کیونکہ کلمہ” الاتمام“ کا مطلب یہ ھے کہ امام علیہ السلام نے احرام حج باندھ لیا تھا جبکہ کلمہ” تمام الحج“ اس معنی کی طرف راھنمائی نھیں کرتا ھے۔ ایسا محسوس ھوتا ھے کہ ” الارشاد“ کے نسخہ مختلف ھیں کیونکہ شیخ قرشی نے شیخ مفید ۺ کے کلام کو اسی طرح نقل کیا ھے جس طرح طبرسی نے” اتمام الحج “ نقل کیا ھے۔( ج۳ ،ص ۵۰) یہ انھوںں نے ارشاد کے ص ۲۴۳سے نقل کیا ھے جبکہ ھم نے ارشاد کے ص ۲۱۸ طبع حیدریہ پر” تمام الحج“ دیکھاھے اور یھی صحیح ھے

[6] ابو مخنف کا بیان ھے کہ مجھ سے حارث بن کعب والبی نے عقبہ بن سمعان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ھے۔ (طبری، ج ۵،ص۳۸۳)

[7] یہ بات یھاں قابل توجہ ھے کہ ابن عباس ظلم کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مخا لف نھیں ھیں بلکہ قیام کے لئے حالات سازگار ھیں یا نھیں ، اس میں انھیں شک ھے۔امام حسین علیہ السلام نے بھی ان کے نظریہ کو رد نھیں کیا بلکہ آپ ان کو اپنا خیر خواہ سمجھتے تھے لیکن اسی حال میں اپنے بلند مقصد اور اپنی رسالت کے سلسلہ میں کوشاں تھے کیونکہ آپ اسی ماحول میں نظام اموی کے خلاف قیام کو لازم سمجھ رھے تھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next