امام حسین علیہ السلام کی شھادت



 

سر کا رسید الشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جب فقط تین یاچار ساتھی رہ گئے تو آپ نے اپنا یمنی لباس منگوا یا جو مضبوط بناوٹ کا صاف وشفاف کپڑا تھا اسے آپ نے جا بجا سے پھاڑدیا اور الٹ دیا تاکہ اسے کوئی غارت نہ کرے ۔[1]ا ور[2]

اس بھری دوپھر میں آپ کافی دیر تک اپنی جگہ پرٹھھرے رھے۔ دشمنوں کی فوج کا جو شخص بھی آپ تک آتا تھا وہ پلٹ جاتا تھا کیونکہ کوئی بھی آپ کے قتل کی ذمہ داری اوریہ عظیم گناہ اپنے سر پر لینا پسند نھیں کررھا تھا۔ آخر کار مالک بن نسیربدّی کندی[3] آنحضرت کے قریب آیا اور تلوار سے آپ کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ برنس (ایک قسم کی ٹوپی جو آغاز اسلام میں پھنی جا تی تھی ) جو آپ کے سر پر تھی شگافتہ ھوگئی اور ضرب کا اثر آپ کے سر تک پھنچا اور آپ کے سر سے خون جاری ھوگیا ، برنس خون آلود ھوگئی ، تو حسین علیہ السلام نے اس سے کھا : ”لا اٴکلت بھا ولا شربت وحشرک اللّٰہ مع الظالمین“ تجھے کھانا ، پینا نصیب نہ ھو،اور اللہ تجھے ظالموں کے ساتھ محشور کرے ۔

پھر آپ نے اس برنس کوالگ کیا اور ایک دوسری ٹوپی منگوا کر اسے پھنا اور اس پر عمامہ باندھا۔[4]اسی طرح سیاہ ریشمی ٹوپی پر آپ نے عمامہ باندھا۔ آپ کے جسم پر ایک قمیص [5]یاایک ریشمی جبہ تھا ،آپ کی ڈاڑھی خضاب سے ر نگین تھی، اس حال میں آ پ میدان جنگ میںآئے اورشیربیشہٴ شجاعت جیساقتال شر وع کیا،دشمنو ں کے ھر تیر سے خود کوماھرانہ اندازمیں بچا رھے تھے ، دشمن کی ھر کمی اورضعف سے فائدہ اٹھارھے تھے اور اسے غنیمت و فرصت شمار کررتے ھوئے اور دشمن پر بڑازبردست حملہ کررھے تھے۔[6]

اسی دوران شمراھل کوفہ کے دس پیدلوں کے ساتھ حسین علیہ السلام کے خیموںکی طرف بڑھنے لگا جن میں آپ کے اثاثہ اور گھر والے تھے۔ آپ ان لوگوں کی طرف بڑھے تو ان لوگوں نے آپ اورآپ کے گھر والوں کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا۔یہ وہ موقع تھا جب آپ نے فرمایا:” ویلکم !ان لم یکن لکم دین ،وکنتم لاتخافون یوم المعادفکونوافي اٴمردنیاکم اٴحراراًذوی اٴحساب ! امنعوارحلی واٴھلي من طغامکم وجھالکم !“

 ÙˆØ§Ø¦Û’ Ú¾Ùˆ تم پر !اگر تمھارے پاس دین نھیںھے اورتمھیںقیامت کا خوف نھیں Ú¾Û’ توکم ازکم دنیاوی امور میں تو اپنی شرافت اور خاندانی آبرو کا لحاظ رکھو Ø› ان اراذل واوباشوں Ú©Ùˆ ھمارے خیموں اور گھر والوںسے دور کرو۔ یہ سن کرشمر بن Ø°ÛŒ الجوشن بولا : اے فرزندفاطمہ یہ تمھاراحق Ú¾Û’ ! یہ کہہ کر اس Ù†Û’ آپ پر حملہ کردیا، حسین (علیہ السلام) Ù†Û’ بھی ان لوگوں پر زبر دست حملہ کیاتووہ لوگ ذلیل ورسواھوکر وھاںسے پیچھے Ú¾Ù¹ گئے۔ [7]عبداللہ بن عمار بارقی[8] کابیا Ù† Ú¾Û’ : پھر پیدلو Úº Ú©ÛŒ فوج پر Ú†Ù¾ وراست سے آپ Ù†Û’ زبردست حملہ کیا ؛پھلے آپ ان پر حملہ آور ھوئے جوداھنی طرف سے یلغار کررھے تھے اورایسی تلوار چلا ئی کہ وہ خوف زدہ ھوکر بھاگ Ú¯Ú¾Ú‘Û’ ھوئے پھر بائیں جانب حملہ کیا یھاںتک وہ بھی خوف زدہ ھوکر بھاگ گئے۔خداکی قسم میں Ù†Û’ کبھی ایسا ٹوٹاھوا انسان نھیںدیکھا جس Ú©Û’ سارے اھل بیت، انصار اورساتھی قتل کئے جاچکے ھوںاس کا دل اتنامستحکم، اس کاقلب اتنامطمئن اور اپنے دشمن Ú©Û’ مقابلہ میں اس قدرشجاع Ú¾Ùˆ جتنے کہ حسین علیہ السلام تھے۔ خداکی قسم میںنے ان سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ اور ان Ú©Û’ بعد کسی Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ جیسانھیں دیکھا۔اگرپیدل Ú©ÛŒ فوج ھوتی تھی تو Ú†Ù¾ وراست سے ایساذلیل ورسواھو Ú©Û’ بھاگتی تھی جیسے شیر کودیکھ کرھرن بھاگتے ھیں۔[9]اسی دوران عمر بن سعد ØŒ امام حسین علیہ السلام Ú©Û’ قریب آیا، اسی اثناء میں امام (علیہ السلام)  Ú©ÛŒ بھن زینب بنت فاطمہ علیھاالسلام خیمہ سے باھرنکلیںاورآوازدی : ”یاعمر بن سعد ! اٴیقتل اٴبو عبداللّٰہ واٴنت تنظر الیہ “ اے عمر بن سعد ! کیاابو عبداللہ الحسین قتل کئے جارھے ھیں اور توکھڑادیکھ رھا Ú¾Û’Û” تو اس Ù†Û’ اپنا چھرہ ان Ú©ÛŒ طرف سے پھیرلیا[10]Ú¯Ùˆ یا میں عمر Ú©Û’ آنسووٴں Ú©Ùˆ دیکھ رھاتھا جو اس Ú©Û’ رخسار اور ڈاڑھی پر بہہ رھے تھے Û”[11]

ادھر آپ دشمنوں کی فوج پر بڑھ بڑھ کر حملہ کرتے ھوئے فرمارھے تھے :” اٴعلی قتلي تحاثون ؟ اما واللہ لا تقتلو ن بعدي عبدا من عباداللّٰہ اٴسخط علیکم لقتلہ مني !و اٴیم اللہ اني لاٴرجو اٴن یکرمنی اللّٰہ بھوا نکم ثم ینتقم لي منکم من حیث لا تشعرون [12]

اٴماواللّٰہ لو قد قتلتموني لقد اٴلقی اللّٰہ باٴسکم بینکم وسفک دمائکم ثم لا یرضی لکم حتی یضاعف لکم العذاب الاٴلیم !“[13]

کیا تم لوگ میرے قتل پر( لوگوں Ú©Ùˆ) بر انگیختہ کررھے Ú¾Ùˆ ؟خدا Ú©ÛŒ قسم میرے بعد خدا تمھارے ھاتھوں کسی Ú©Û’ قتل پر اس حد تک غضبناک نھیں ھوگا جتنا میرے قتل پروہ تم سے غضبناک ھوگا ،خدا Ú©ÛŒ قسم میں امید رکھتا Ú¾ÙˆÚº کہ تمھارے ذلیل قرار دینے Ú©ÛŒ وجہ سے خدا مجھے صاحب عزت Ùˆ کرامت قرار دے گاپھر تم سے ایسا انتقام Ù„Û’ گا کہ تم لوگ سمجھ بھی نہ پاوٴ Ú¯Û’ خدا Ú©ÛŒ قسم اگر تم لوگوں Ù†Û’ مجھے قتل کردیا تو خدا تمھاری شرارتوں Ú©Ùˆ تمھارے Ú¾ÛŒ درمیان ڈال دے گا ØŒ تمھارے خون تمھارے Ú¾ÛŒ ھاتھوں سے زمین پر بھا کریں Ú¯Û’  اس پر بھی وہ تم سے راضی نہ ھوگا یھاں تک کہ درد ناک عذاب میں تمھارے لئے چند گُنا اضافہ کردے گا Û”

پھر پیدلوں کی فوج کے ھمراہ جس میںسنان بن انس نخعی ، خولی بن یزید اصبحی[14] صالح بن وھب یزنی ، خشم بن عمرو جعفی اور عبدالرحمن جعفی[15] موجود تھے شمر ملعون امام حسین علیہ السلام کی طرف آگے بڑھا اور لوگوں کوامام حسین علیہ السلام کے قتل پر اُکسانے لگا تو ان لوگوں نے حسین علیہ السلام کو پوری طرح اپنے گھیرے میں لے لیا ۔ اسی اثنا ء میں امام حسین علیہ السلام کی طرف سے آپ کے خاندان کاایک بچہ [16]میدان میںآنکلا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بھن زینب بنت علی (علیھماالسلام ) سے کھا:”احبسیہ“ بھن اسے روکو، تو آپ کی بھن زینب بنت علی( علیھما السلام) نے روکنے کے لئے اس بچے کو پکڑا لیکن اس بچہ نے خود کو چھڑا لیا اور دوڑتے ھوئے جاکر خود کو حسین علیہ السلام پر گرادیا ۔



1 2 3 4 5 6 7 8 next