دین میں سیاست کی اہمیت



آیہ مذکورہ میں نہ صرف یہ کہ حضرت رسول اکرم کے لئے قضاوت ثابت ھے بلکہ آنحضرت کی قضاوت وداوری کو قبول کرنا شرط ایمان ھے، چونکہ آیت کے شروع میں قسم کھائی گئی ھے لھٰذا اس مطلب کی مزید تاکید ھوجاتی ھے کہ مومنین کو چاھئے کہ اختلافی مسائل میں آپ کے فیصلے اور حکم کو دل وجان سے قبول کریں، اور آپ کے دئے ھوئے فیصلہ پر ناراض نہ ھوں، اور اگر آنحضرت کے فیصلہ پر اعتراض کیا اور ا س کو دل وجان سے قبول نہ کیا تو پھر وہ حقیقی مومن نھیں ھے ۔

جی ھاں حقیقی مومن وہ ھے کہ اگر اسلامی حکومت اس کے برخلاف کوئی فیصلہ دے تو اس کو دل وجان سے قبول کرے اگرچہ یہ احتمال بھی ھو کہ اس کا حق ضایع ھوا ھے کیونکہ قاضی گواھوں او ردوسرے شواھد کی وجہ سے ظاھری حکم کرتا ھے جیسا کہ رسول اکرم نے بھی فرمایا:

”انما اقضی بینکم بالبینات والایمان“ (5)

میں تمھارے درمیان قسم اور دوسرے شواھد کی بناپر قضاوت اور فیصلہ کرتا ھوں، ممکن ھے کہ کوئی گواہ ظاھراً عادل اور معتبر ھو اور اس کی گواھی قبول ھو؛ اگر اس کی گواھی جھوٹ پر مشتمل ھو یا گواہ سے کوئی بھول چوک یا غلطی واقع ھوئی ھو لیکن اگریہ طے قرارپائے کہ قاضی کے فیصلہ کو قبول نہ کیا جائے اگرچہ خلاف واقع بھی ھو تو پھر بھت سی مشکلات پیدا ھوجائیں گی او راسلامی حکومت نھیں چل پائے گی ۔

قرآ ن سے جو نتائج نکلتے ھیں اور قرآن مجید کا جزائی امورجیسے دیت، قصاص اورتعزیرات (سزا دینا) وغیرہ کا بیان اس بات پر گواہ ھے کہ اسلام سیاست و حکومت میں سب سے بڑی دخالت رکھتا ھے اور حدتو یہ ھے کہ اسلام نے مجرم اور مفسد کے لئے ”حد“ (اسلامی سزا) معین کی ھے اور قاضی کو اس حدتک اجازت دی ھے کہ مفسد اور مجرم پر حد جاری کرے اگرچہ کوئی مخصوص شکایت کرنے والا نہ ھو ، چونکہ ایسی صورت میں گویا حقوق الھٰی کو پامال کیا گیا ھے (لھٰذا اس کو سزا دی گئی ھے)

بعض مقامات پر تو اسلام نے بھت سنگین اور سخت سزا معین کی ھیں کہ جس کی بناپر بعض لوگوں کے لئے ان کا قبول کرنا مشکل ھوجاتاھے، مثلاً قرآن مجید میں حکم ھوا کہ اگر اسلامی معاشرے میں کسی نے زنا کیا او ر قاضی کے نزدیک چار عادل گواھوں نے گواھی دی اور وہ جرم قاضی کے نزدیک ثابت ھوچکا ھے تو زانی اور زانیہ میں سے ھر ایک سوسو تازیانے لگائے جائیں، اور قرآن نے اس سلسلہ میں خصوصی طور پر تاکید کی ھے تاکہ قاضی عواطف ومحبت سے متاٴثر نہ ھو، او ران کے ساتھ مھربانی ومحبت سے پیش نہ آئے، ارشاد ھوتا ھے:

(اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کَلَّ وَاحِدٍ مِنْھمَا مِاٴئَةَ جَلْدَةٍ وَلاَتاَخُذُکُمْ بِھمَا

رَافَةٌ فِیْدِیْنِ اللّٰہ )(6)

”زنا کرنے والی عورت او رزنا کرنے والے مرد ان دونوں میں سے ھر ایک کو سو(سو) کوڑے مارو او راگرتم خدا او ر روز آخرت پر ایمان رکھتے ھو تو حکم خدا کے نافذ کرنے میں تم کو ان کے بارے میں کسی طرح کا رحم کا لحاظ نہ ھونے پائے “

اس میں کوئی شک نھیں کہ اگر کسی پر ایسی ”حد“ جاری ھوگئی تو اس کی عزت وآبرو ختم ھوجاتی ھے لیکن معاشرہ اور سماج ان تمام برائیوں سے پاک ھوجاتا ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next