دین میں سیاست کی اہمیت



مذکورہ آیت میں سال کے بارہ مھینوں کی تقسیم تکوینی لحاظ سے اور خلقت کے نظام پر منطبق ھیں، اور اس طرح کے مطالب دین میںذکر ھونا، دین کے صحیح اور مستحکم ھونے کی نشانی ھے، اسی طرح قرآن مجید میں چاند کو دیکھنے کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:

(یَسْئَلُونَکَ عَنِ الاٴھلَّةِ قُلْ ھیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ) (9)

”(اے رسول ) تم سے لوگ چاند کے بارے میں پوچھتے ھیں (کہ کیوں گھٹتا بڑھتا ھے) تم کھہ دو کہ اس سے لوگوں کے (دینوی امور اور حج کے اوقات معلوم ھوتے ھیں “

اس وجہ سے اجتماعی وعبادی احکام تکوینی نظام پر منطبق ھوتے ھیں اس کے علاوہ بھت سے حقوقی احکام ماہ رمضان کا آغاز، حج کا زمانہ اور دوسری عبادی احکام چاند دیکھنے پر متوقف ھیں اور اس کی وجہ یہ ھے کہ قرآن مجید دین کو فطرت اور نظام خلقت سے ھم آھنگ اور منطبق بتاتا ھے:

(فَاٴَقِمْ وَجْھکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطَرَةَ اللّٰہ الَّتِی فَطَرَ النّٰاسَ عَلَیْھا لاَتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہ) (10)

”تو(اے رسول) تم باطل سے کترا کے اپنا رخ دین کی طرف کئے رھو، یھی خدا کی بناوٹ ھے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ھے خدا کی (درست کی ھوئی )بناوٹ میں (تغیر)تبدل نھیں ھوسکتا“

اور چونکہ الھٰی قوانین فطرت الھٰی کی بنیاد پر بنائے گئے ھیں لھٰذا یہ قوانین مسلم ھیں او ران میں تبدیلی نھیں آسکتی، البتہ یھاں توجہ رکھنی چاھئے کہ اسلام کے بعض احکام وقوانین ایسے ھیں جو کسی خاص زمان ومکان کے لحاظ سے تبدیل ھوسکتے ھیں لیکن ان مسائل کو طے کرنا یا ان کو معین کرنا حاکم شرع کی ذمہ داری ھے، وہ حاکم شرع کہ جس کی مشروعیت اور طاقت خدا کی طرف سے ھے، قرآن مجید نے اس باعظمت منصب کو رسول اکرم کے لئے مقرر فرمایا ھے اور شیعہ عقائد کے لحاظط سے ائمہ معصومین علیھم السلام کے لئے بھی یہ منصب ھے (جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے ) او ران کے بعد یہ مقام ولی فقیہ کے لئے معین ھوا ھے (ولی فقیہ کے بارے میں دوسرے موقع پر تفصیل سے بحث کریں گے،انشاء اللہ)

لھٰذا یہ اعتراض کہ دین کا اجتماعی مسائل سے کوئی مطلب نھیں، اور یہ کہ دین صرف آخرت سے مربوط ھے ،یعنیانسان کے خداسے رابطہ کا نام ھے یہ اعتراض بالکل ختم ھوجاتا ھے، اور نہ یہ اعتراض دین سے مربوط ھے، البتہ اس دنیا میں کوئی ایسابھی دین ھوسکتا ھے کہ جس پر مذکورہ اعتراض وارد ھوسکتا ھو، لیکن ھماری بحث اس دین سے نھیں ھے ،بلکہ ھماری گفتگو اس دین کے بارے میں ھے جس میں سال کے مھینوں تک کو بیان کردیا گیا ھو جس میں معاملات اور مالی روابط کے بارے میں اس طرح تاکید کی گئی ھو کہ اگر کوئی شخص ایک دوسرے کو قرض دے تو اس کو لکہ لیا جائے یا دو گواھوں کے سامنے قرض دیا جائے،اور اگر لکھنا یا گواہ لینا ممکن نہ ھو تو کوئی چیز گروی رکہ لی جائے، (قرآن مجید میں رھن کے جواز کے بارے میں جو بیان ھوا ھے وہ ایسے ھی مقامات کے لئے کہ اگر کوئی شخص کسی کو قرض دے اور اس سے کوئی نوشتہ یا سند نہ لے سکے تو اس سے کوئی قیمتی چیز بعنوان گروی لے کر اس کو قرض دے دیا جائے)

لھٰذا ھم معتقد ھیں کہ دین اسلام سیاست، حکومت اور لوگوں کی مادی اور معنوی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پروگرام رکھتا ھے ۔

ھم نے گذشتہ جلسہ میں دین کی اس تعریف کو جس میں دین کو فقط انسان کے خدا سے رابطہ میں منحصر کیا گیا تھا اس کی ردّ کرتے ھوئے حقیقی دین کی تعریف کی تھی اور ھم نے عرض کیا تھا کہ دین کے صحیح معنی یہ ھیں کہ انسانی زندگی پر الھٰی جلوہ ھو جو انسان کے تکامل کا راستہ بیان کرے اور اس کو مبداٴ ومعاد کی طرف متوجہ رکھے پس دین انھیں راستوں کے اختیار کرنے کانام ھے او ربغیر کسی شک وشبہ کے ایسا دین زندگی کے کسی ایک حصہ مثلاً عبادت اور دوسرے عبادی کامو ں میں منحصر نھیں ھوسکتا، بلکہ انسانی زندگی کے تمام پھلوٴوں پرنظر رکھتا ھے کیونکہ انسان کی تخلیق کی وجہ یہ ھے کہ انسان ابدی اور ھمیشگی سعادت کو حاصل کرسکے اسی بناپر اپنی زندگی کے تمام پھلوٴوں کو الھٰی احکامات سے ھم آھنگ کرے، لھٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا کی براہ راست عبادت اور اصطلاحی عبادت دین کا بعض حصہ ھے اور ھماری زندگی کے دوسرے فکری وعملی پھلو خدا کی مرضی کے مطابق ھونا چاھئے، اور جب ھمارے سارے کام مرضی معبود کے مطابق ھوجائیں گے تو یہ تمام کام بھی عبادت بن جائیں گے اور انسان اس طرح زندگی کے بلند ترین مرتبہ پر پھونچ جائے گا:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next