معصومین علیهم السلام کے بارے مختصر نکات



خروجہ فی آخر الزمان

 

قد صح بالنص و البرھان

آخری زمانہ میں آپ کا ظاھر ھونا نص اور برھان دونوں سے ثابت ھے

(۱۰)مناسب ھے کہ مولانا حضرت حجت بن الحسن المہدی کی ولادت باسعادت کے موقع پر امام جواد(علیہ السلام) کی صاحبزادی جناب حکیمہ خاتون کے مشاہدات کا ذکر کریں۔ اس غرض سے اکمال الدین کے ۴۲ ویں باب کے معنی خیز متن حدیث کو ص/۴۲۶ سے نقل کرتے ھیں:

محمد ابن عبد اللہ مطھری حکیمہ خاتون سے نقل کرتے ھیں کہ میں نے ان سے کھا: اے بی بی! مجھے میرے مولا کی ولادت اور غیبت کے بارے میں بتائیے تو انھوں نے کھا ھاں، نرجس نامی میری ایک کنیز تھی میرے بھائی سے اس کی ملاقات ھوگی تو اس کی طرف دیکھنے لگے، تو میں نے کھا: اے آقا! شاید آپ کو اچھی لگ رھی ھے تو کیا میں اُسے آپ کے پاس بھیجوں تو آپ نے کھا: نھیں پھوپھی لیکن مجھے اس سے حیرت ھے۔ میں نے کھا: آپ کو اس کی کونسی چیز نے حیرت زدہ کردیا ھے امام نے فرمایا: اس سے ایک شریف اور کریم بچہ پیدا ھوگا جس کے ذریعہ خداوندعالم زمین کو ظلم و جور سے بھرنے کے بعد عدل و انصاف سے بھر دے گا، پھر میں نے کھا: میں اُسے آپ کی طرف بھیج رھی ھوں اے آقا! تو حضرت نے کھا: اس سلسلہ میں آپ میرے والد ماجد سے اجازت لیں پھر حکیمہ خاتون فرماتی ھیں: یہ سن کر میں نے اپنا کپڑا بدلا اور ابوالحسن کے گھر آئی اور آپ کو سلام کرکے بیٹھ گئی تو حضرت مجھ سے ھمکلام ھوئے اور کھا: اے حکیمہ! نرجس کو میرے فرزند محمد کے پاس بھیج دو۔ انھوں نے کھا: اے آقا! میں آپ سے اجازت لینے ھی کے ارادہ سے آئی تھی، حضرت نے کھا: اے مبارکہ! خداوندعالم تمھیں اس اجر میں شریک کرنا چاہتا ھے اور خیر میں تمھارا حصہ قرار دیا ھے۔

محمَّد بنُ عبدِ اللّٰہ المُطَھَّری عَن حَکِیْمَة رضِی اللّٰہُ عنھا قَال: قلتُ لَھَا یا سیدتی! دثینی بولادة مولای و غیبتہ(علیہ السلام)۔ قالت نعم، کانت لی جاریة یقال لھا نرجس فزارنی اخی(علیہ السلام)، فاقبل یحدق النظر الیھا، فقلت لہ: یا سیدی! لعلک ھویتھا فارسلھا الیک؟ فقال: یا لاعمة و لکنی اتعجب منھا۔ فقلت: وما اعجبک منھا؟ فقال(علیہ السلام): سیخرج منھا و لد کریم علی اللہ عز و جل الذی یملا اللہ (بہ) الارض عدلاً و قسطاً کما ملئت ظلماً و جوراً قلت: فار سلنا الیک یا سیدی؟ فقال: استاذنی فی ذلک ابی(علیہ السلام) و قالت، فلبست ثیابی و اتیت منزل ابی الحسن(علیہ السلام)، فسلمت علیہ و جلست فبدانی(علیہ السلام) و قال: یا حکیمة! ابعثی نرجس الی ابنی ابی محمد۔ قالت: فقلت یا سیدی! علی ھذا قصد تک ان استاذنک فی ذلک، فقال لی: یا مبارکة! ان اللہ تبارک و تعالی احب ان یشرکک فی الاجر و یجعل لک فی الخیر نصیباً۔

حکیمہ خاتون کہتی ھیں کہ تھوڑی دیر بعد میں اپنے گھر آئی اور اسے سنوار بنا کر ابو محمد(علیہ السلام) کو بخش دیا اور اپنے گھر میں دونوں کو ایک جگہ کردیا کچھ دن تک وہ میرے گھر میں رھنے کے بعد اپنے والد کے گھر چلے گئے اور اُسے بھی ان کے ھمراہ کردیا اور جب ابوالحسن(علیہ السلام) کی شھادت ھوگئی اور ابومحمد(علیہ السلام) ان کے جانشین ھوئے تو میں جس طرح ان کے والد کی زیارت کرتی تھی اسی طرح ان کی بھی زیارت کرتی رھی ایک دن نرجس میرے پاس آکر میرے پیر کا جوتا اتارنے لگی اور کھا: اے شہزادی! اپنا جوتا مجھے دیجئے تو میں نے کھا: تم خاتون اور شہزادی ھو میں تمھیں اپنا جوتا اتارنے نھیں دوں گی اور نہ میں اپنی خدمت کا موقع دوں گی اور جب اس گفتگو کو ابومحمد(علیہ السلام) نے سنا تو کھا: خدا آپ کو جزائے خیر دے اے پھوپھی! پھر میں سورج ڈوبنے تک ان کے پاس بیٹھی رھی پھر میں نے کنیز کو آواز دی کہ میرا کپڑا لاو تاکہ میں گھر جاوں۔ یہ سُن کر امام(علیہ السلام) نے کھا: اے پھوپھی! آج شب میرے گذاریئے کیونکہ آج کی رات خداوندعالم کی عنایت سے ایک کریم بچہ پیدا ھوگا جس کے ذریعہ خداوندعالم زمین کو مردہ ھونے کے بعد زندہ کرے گا، میں نے کھا: کس کے بطن سے اے آقا! جب کہ میں نرجس میں حمل کا کوئی اثر نھیں دیکھ رھی ھوں؟ حضرت نے فرمایا: نرجس کے بطن سے نہ کسی اور کے، پھر حکیمہ خاتون کہتی ھیں کہ میں یہ سن کر دوڑی ھوئی گئیں اور نرجس کے پیٹ کے پاس پشت کا بوسہ دیا پھر بھی حمل کا پتہ نھیں چلا اور میں دوبارہ حضرت کے پاس آگئی اور جو کچھ میں نے کیا تھا اس کی انھیں خبر دی تو حضرت مسکرا کر بولے: جب فجر کا وقت ھوگا تو آپ کو حمل کا اندازہ ھوگا کیونکہ ان کی مثال موسیٰ کی ماں کی سی ھے کہ کوئی ولادت کے وقت تک نہ جان سکا اور نہ ھی حمل ظاھر ھوا کیونکہ فرعون حاملہ عورتوں کا موسیٰ کی تلاش میں پیٹ چاک کرادیتا تھا اور یہ موسیٰ کی طرح ھیں۔

حکیمہ فرماتی ھیں کہ پھر میں اُن (نرجس) کے پاس آئی اور جو کچھ حضرت نے کھا تھا سب کچھ انھیں بتادیا اور ان کی احوال پُرسی کی؟ پھر انھوں (نرجس) نے کھا: اے شہزادی میں اپنے اندر ایسی کوئی چیز محسوس نھیں کررھی ھوں تو حکیمہ نے کھا: پھر میں فجر طلوع تک ان کی نگرانی کرتی رھی اور وہ میرے سامنے سوتی رھیں اور ایک پھلو سے دوسرا پھلو بھی نھیں بدلتی تھیں یھاںتک کہ رات تمام ھونے لگی اور فجر نمودار ھونے لگی تو گھبراکر اُٹھ بیٹھیں پھر میں نے انھیں اپنے سینے سے لگا لیا اور ان خدا کا نام پڑھا (یعنی میں نے اسم اللہ علیک یعنی خدا نگھبان ھے کھا) لیکن ابومحمد نے مجھ سے کھا کہ آپ ”اناانزلناہ فی لیلة القدر“ کی تلاوت کریں تو میں اُن پر اس کی تلاوت کرنے لگی جیساکہ مجھے حکم دیا گیا تھا پھر پیٹ کے اندر سے بچہ نے میرا جواب دیا اور جو میں پڑھ رھی تھی وھی وہ بچہ پڑھ رھا تھا پھر اُس نے مجھے سلام کیا: اور جب میں نے سنا تو گھبراگئی پھر ابومحمد نے مجھے آواز دی: امر الٰھی سے تعجب نہ کیجئے کیونکہ خداوندعالم ھمیں بچپنے میں حکمت اور نطق اور گویائی عطا کرتا ھے اور بڑے ھونے پر اپنی زمین پر ھمیں حجت بناتا ھے ابھی گفتگو تمام نھیں ھوئی تھی کہ نرجس خاتون ھماری نظروں سے غائب ھوگئیں اور میں نے انھیں نھیں دیکھا گویا میرے اور ان کے درمیان ایک حجاب حائل ھوگیا پھر ابومحمد کی طرف چیختی ھوئی واپس آئی تو انھوں نے مجھ سے کھا-: اے پھوپھی عنقریب آپ اِنھیں ان کی جگہ پر پائیں گی۔

حکیمہ خاتون فرماتی ھیں: پھر میں جب واپس آئی تو زیادہ دیر نھیں ھوئی کہ جو میرے اور ان کے درمیان حجاب تھا وہ اُٹھ گیا اور جب میں نے انھیں دیکھا تو ان سے ایسا نور ساطع تھا کہ میری نظر چکاچوند ھورھی تھی اور دیکھا کہ بچہ گھٹنوں کو موڑے ھوئے چھرے کے بل سجدہ میں ھے اور دونوں ھاتھوں کو آسمان کی جانب اٹھائے ھوئے کہہ رھا ھے: ”اَشْھَدُ اَنْ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ (وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ) اور میرے جدّ (محمد) اللہ کے رسول ھیں اور میرے باپ امیرالمومنین(علیہ السلام) ھیں اس کے بعد اماموں کا شمار کرنا شروع کردیا اور شمار کرتے کرتے اپنے تک پھونچے اس کے بعد کھا:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 next