معصومین علیهم السلام کے بارے مختصر نکات



”اَللّٰہُمَّ اَنْجِزْ لِی وَعْدَی وَ اَتْمِمْ لِی اَمْرِی وَ ثَبِّتْ وَطْاَتِی وَاْمْلاَ ِالْاَرْضَ بِی عَدْلاً وَ قِسْطاًخدایا میرے وعدہ کو پورا کر میرے امر کو تمام کر اور میرے قدم کو ثابت رکھ اور میرے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے

قالت حکیمة: فلم البث ان رجعت الی منزلی و زینتھا و وھبتھا لابی محمد(علیہ السلام) و جمعت بینہ و بینھا فی منزلی فاقام عندی ایاماً ثم مضی الی والدہ وو جھت بھا معہ فمضیٰ ابو الحسن(علیہ السلام) و جلس ابو محمد(علیہ السلام) مکان والدہ و کنت ازورہ کما کنت ازور والدہ، فجائتنی نرجس یوماً تخلع خفی و قالت: یا مولاتی ناولینی خفک ۔خفک فقلت: بل انت سیدتی و مولاتی، واللہ لا دفعت الیک خفی لتخلعےہ ولا لتخد مینی بل انا اخدمک علی بصری، فسمع ابو محمد(علیہ السلام)، فقال: جزاک اللہ خیراً یا عمة، فجلست عندہ الی وقت غروب الشمس، فصحت بالجارےة و قلت، ناولینی ثیابی لانصرف فقال(علیہ السلام): یا عمتاہ بیتی اللیلة عندنا فانہ سیولد اللیلة المولود الکریم علی اللہ عز و جل، الذی یحی اللہ عز و جل بہ الارض بعد موتھا، قلت، ممن یا سیدی و لست اری بنرجس شےئاً من اثر الحبل؟ فقال: من نرجس لا من غیرھا، قالت: فوثبت الیھا فقبلتھا ظھراً لبطن فلم اربھا اثر الحبل، فعدت الیہ فاخبرت بما فعلت، فتبسم ثم قال لی: اذا کان وقت الفجر ےظھر لک بھا الحبل، لان مثلھا مثل ام موسیٰ لم یظھر بھا الحبل ولم یعلم بھا احد الی وقت ولا دتھا، لان فرعون کان یشق بطون الحبالی فی طلب موسی(علیہ السلام) وھذا نظیر موسی(علیہ السلام)۔

قالت حکیمة: فعدت الیھا فاخبرتھا بما قال وسالتھا عن حالھا؟ فقالت: یا مولاتی ما اریٰ بی شےئاً من ھذا، قالت حکیمة: فلم ازل ارقبھا الی وقت طلوع الفجر وھی نائمة بین یدی لاتقلب جنباً الی جنب حتی اذا کان آخر اللیل وقت طلوع الفجر وثبت فزعة فضممتھا الی صدری و سمیت علیھا (ای قلت: اسم اللہ علیک)فصاح الی ابو محمد(علیہ السلام) و قال اِقری علیھا ”انا انزلناہ فی لیلة القدر“ فاقبلت اقرا علیھا کما امرنی فاجابنی الجنین من بطنھا یقرا مثل ما اقرا فسلم علیّ: ففز عت لما سمعت، فصاح بی ابو محمد: لا تعجبی من امر اللہ ان اللہ تبارک و تعالی ینطقنا صغاراً بالحکمة و یجعلنا حجة فی ارضہ کباراً، فلم ےستتم الکلام حتی غیبت عنی نرجس، فلم ارھا، کانہ ضرب بینی و بینھا حجاب، فعدت نحوابی محمد(علیہ السلام) و انا صارخة، فقال لی: ارجعی یا عمة ستجد ینھا فی مکانھا۔

قالت: فرجعت فلم البث ان کشف الغطاء الذی کان بینی و بینھا و اذا انا بھا و علیھا من اثر النور ما غشیٰ بصری، و اذا انا بالصبی(علیہ السلام) ساجداً لوجھہ جاثیا علی رکبتےہ، رافعاً بسبابتیہ نحو السماء و ھو یقول:”اشھد ان لا الہ الا اللہ (وحدہ لا شریک لہ) و ان جدی (محمداً) رسول اللہ و ان ابی امیر المومنین(علیہ السلام)، ثم عد اماماً الی ان بلغ الی نفسہ۔ ثم قال(علیہ السلام): ”اللھم انجزلی و عدی و اتمم لی امری و ثبت و طاتی و املاالارض بی عدلاً و قسطاًو۔۔۔[27]

(۱۱)احمد الکاتب اپنی کتا ب (تطور الفکر السیاسی الشیعی من الشوریٰ الی ولایة الفقیہ) میں اس بات کا دعویٰ کیا ھے کہ مہدی موعود کی ولادت کے سلسلہ میں تاریخی کوئی قابل وثوق سند نھیں ھے اور شدت پسند شیعوں نے تاریخ میں تحریف کر کے ان کی ولادت پر اپنے عقیدہ کی تبلیغ اور پروپگنڈہ کیا ھے اور کرتے ھیں! افسوس ھے کہ ”المجمع الفقھی فی رابطہ العالم الاسلامی“ نے بھی ۳۱/۵/۱۹۷۶ کو حضرت کی عدم ولادت اور ان کے حسنی نہ ھونے پر فتوی دیا ھے، اس کے لئے موامرة المتاجرین بالدین، ص/۲۹ ملاحظہ ھو، مناسب ھے کہ ولادت مہدی کے قول کے تواتر کو علمائے اھلسنت کے نزدیک بھی مستند انداز میں اثبات کریں۔

 



[1] الار بعین/ ابی الفوارس، ص/۳۸ (خطّی) اسی مضمون سے مشابہ حدیث شیعوں کی روایات کی کتابوں میں بھی وارد ھوئی ھے جیسے کتاب الفضائل، حسین ابن حمدان حضینی، ص/۱۶۶؛ بحار الانوار، ج/۳۶، ص/۲۱۳

[2] ینابیع المودة، ص/۴۴۰، طبع استانبول؛ فرائد السمطین، ج/۲، ص/۱۳۳، طبع بیروت یہ حدیث قرطبی کی تذکرہ و اتحاف اھل الاسلام حنفی مصری میں بھی ذکر ھوئی ھے

[3] مقتل الحسین خوارزمی، ص/۹۴ ؛فرائد السمطین، ج/۲، ص/۱۵۵

[4] مناھج الفاضلین، ص/۲۳۹ (خطی)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 next