حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیهما السلام کے اخلاق کے بلند نمونے



سخاوت اور امداد

حسن بن کثیر کہتے ھیں: میں نے اپنے دینی برادران کی تنگدستی اور جفاکاری کی شکایت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے کی، امام علیہ السلام نے فرمایا: تمہارا وہ بھائی صحیح نھیں ھے جو بے نیازی کے وقت تو تمہارے پاس آتا جاتا رھے اور تنگدستی کے زمانہ میں تم سے قطع تعلق کرلے! اس کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ سات سو درھم سے بھری ایک تھیلی حسن بن کثیرکو دیدو، اور فرمایا: اس کو خرچ کرو اور جب یہ ختم ھوجائے تو مجھے مطلع کردینا۔[2]

نیک کام سے نہ تھکنا

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے اصحاب کا کہنا ھے: امام علیہ السلام نے ھمیں مدد کرنے کے لئے پانچ سے چھ لاکھ درھم تک کی اجازت دے رکھی تھی اور آپ اپنے بھائیوںاور آپ کی خدمت میں حاضر ھونے والے قاصد، آرزومند اور امیدواروں کو عطا کرنے سے کبھی بھی ملول نھیں ھوتے تھے۔[3]

نصرانی کے مقابل عجیب بُرد باری

ایک نصرانی مذہب سے تعلق رکھنے والے نے امام محمد باقر علیہ السلام کی توھین کرتے ھوئے کہا: تم بقر ھو؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: نھیں، میں باقر ھوں، اس نے کہا: تم اس باورچی عورت کے بیٹے ھو، امام علیہ السلام نے فرمایا: کھانا بنانا ان کا فن ھے، اس نے کہا: تم سیاہ چہرے، حبشی اور بد زبان کے فرزند ھو! امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر تو سچ کہتا ھے تو خدا انھیں بخش دے اور اگر جھوٹ بولتا ھے خدا تجھے بخش دے، چنانچہ امام علیہ السلام کے اس صابرانہ سلوک کو دیکھ کر وہ نصرانی مسلمان ھوگیا۔[4]

مھمان سے والہانہ دوستی

حضرت امام باقر علیہ السلام کی کنیز سلمیٰ کہتی ھے کہ: جب امام علیہ السلام کے دینی بھائی آپ کے پاس آتے تھے تو وہ نھیں جاتے تھے مگر یہ کہ ان کو بہترین کھانا کھلاتے تھے اور بہترین لباس عطا کرتے تھے اور ان کو درھم و دینار عطا کرتے تھے! (ایک روز) میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی: آپ اس طرح کی سخاوت سے تنگدست ھوجاؤ گے، امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: اے سلمی! دنیا میں اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا صلہ رحم اور پسندیدہ کاموں میں سے ھے۔

امام علیہ السلام نے اپنے دینی بھائیوں پر پانچ سے چھ لاکھ درھم تک انفاق کرنے کی اجازت دی رکھی تھی، آپ کبھی بھی اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ ھم نشینی سے تھکتے نھیں تھے، اور فرماتے تھے: اپنے دینی بھائی کی دوستی کو اپنے دل میں موجود اس کی محبت کے ذریعہ پہچانو (یعنی اس کی جتنی محبت تمہارے دل میں ھوگی اتنی ھی اس کے دل میں تمہاری محبت ھوگی) ۔ کبھی بھی امام علیہ السلام کے گھر سے یہ نھیں سنا گیا کہ اے سائل! تمہارے وجود میں برکت ھو اور نہ یہ کہ اے سائل! اس کو لے لوبلکہ آپ فرمایا کرتے تھے: سائل کو ھمیشہ اس کے بہترین ناموں سے پکارا کرو۔[5]

زوجہ کے حقوق



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next