اسلامی بیداری عالمی کانفرنس تہران



حاضرین محترم اور مہمانان عزیز کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس جگہ ہم سب کو جس چیز نے یکجا کیا ہے وہ اسلامی بیداری ہے۔ یعنی امت اسلامیہ کے اندر پیدا ہونے والی آگاہی اور انگڑائی جو اس وقت علاقے کی قوموں میں عظیم تبدیلی پر منتج ہوئی ہے اور انقلابوں اور عوامی تحریکوں کا سرچشمہ قرار پائی ہے جس کا علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے شیطانوں کو قطعی کوئی اندازہ نہیں تھا، ایسی عوامی تحریکیں جنہوں نے استبداد اور استکبار کے حصار کو توڑ دیا اور ان کی طرف سے نگہبانی پر مامور قوتوں کو ہزیمت سے دوچار کر دیا۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عظیم سماجی تغیرات ہمیشہ تاریخی اور ثقافتی بنیادوں پر استوار اور علم و آگہی اور تجربات کے ثمرات ہوتے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے دوران مصر، عراق، ایران ہندوستان اور ایشیا و افریقہ کے دیگر ممالک میں اسلامی تحریکیں چلانے والی عظیم فکری و جہادی شخصیات کا ظہور عالم اسلام کی آج کی صورت حال کا مقدمہ تھا۔

جس طرح سنہ انیس سو پچاس اور ساٹھ کے عشرے کے تغیرات بعض مذکورہ ممالک میں مادہ پرست مکاتب فکر اور نظریات والی حکومتوں کی تشکیل کا باعث بنے تھے اور اپنے فطری تقاضوں کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے مغرب کی استکباری اور استعماری طاقتوں کے دام میں گرفتار ہوتے چلے گئے وہ بڑے سبق آموز تجربات ہیں جن کا عالم اسلام کے موجودہ عوامی فکری رجحان کی سمت کے تعین میں اہم کردار ہو سکتا ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کا واقعہ جس میں بقول امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے، شمشیر پر خون کو فتح حاصل ہوئی، اسی طرح پائیدار، مقتدر، شجاع اور مسلسل ارتقائی منزلیں طے کرنے والے اسلامی نظام کی تشکیل اور آج اسلامی بیداری میں اس کی گہری تاثیر بجائے خود بڑی طویل اور بحث و تحقیق طلب داستان ہے جو عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کے تجزئے اور اس کی تاریخ نگاری کا انتہائی اہم باب ثابت ہوگی۔

خلاصہ یہ کہ عالم اسلام میں اس وقت تیزی کے ساتھ پھیلنے والے حقائق ایسے نہیں ہیں کہ تاریخی بنیادوں اور فکری و سماجی مقدمات سے جن کا کوئی تعلق نہ ہو کہ دشمن اور سطحی فکر کے لوگ انہیں وقتی ہیجان اور سطحی حادثہ قرار دیں اور اپنے متعصبانہ اور گمراہ کن تبصروں سے قوموں کے دلوں میں روشن ہونے والی امید کی شمع کو خاموش کر دیں۔ میں اس برادرانہ گفتگو میں تین بنیادی نکات کا جائزہ لینا چاہوں گا؛

1: ان انقلابوں اور عوامی تحریکوں کی ماہیت پر اجمالی تبصرہ

2: سر راہ پیش آنے والے خطرات اور اندیشے

3: ان خطرات کی پیشگی روک تھام اور ان سے نجات کے طریقوں سے متعلق تجاویز

1: پہلے موضوع کے سلسلے میں، میری نظر میں جو چیز ان انقلابات کے تعلق سے سب سے اہم ہے میدان عمل اور مجاہدت کے پلیٹ فارم پر خود عوام کی براہ راست موجودگی ہے، صرف خواہش و ایمان و ایقان کی صورت میں نہیں بلکہ باقاعدہ جسمانی طور پر۔ اس شراکت اور ان قیاموں میں بہت فرق ہے جو کسی فوجی گروہ یا مسلح تنظیم کے ذریعے لوگوں کی نظروں کے سامنے انجام پاتے ہیں یا عوام کی رضامندی بھی ان میں شامل ہوتی ہے۔

افریقہ اور ایشیا کے بعض ممالک میں سنہ انیس سو پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں ان ممالک کے مختلف عوامی طبقات اور نوجوانوں کے دوش پر انقلاب آگے نہیں بڑھا بلکہ کچھ باغی گروہوں اور چھوٹی مسلح تنظیموں نے اس مہم کی کمان سنبھالی تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا اور وارد عمل ہو گئیں، پھر جب یہ تنظیمیں یا ان کے بعد آنے والی نسل نے کچھ خاص عوامل اور محرکات کی بنیاد پر اپنا راستہ بدل لیا تو ان کے ذریعے کامیاب ہونے والے انقلابوں کی ماہیت بھی دگرگوں ہوکر رہ گئی، نتیجتا ان ممالک پر دشمن نے دوبارہ اپنے پنجے گاڑ لئے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next