اسلامی بیداری عالمی کانفرنس تہران



(وہ گروہ جس سے کچھ افراد نے جب کہا کہ لوگ تمہراے خلاف جمع ہو گئے ہیں تو تم ان سے ڈرو تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوا اور اس نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہ سب سے بڑا پشت پناہ ہے۔ وہ اللہ کی نعمت اور فضل و کرم سے بالکل بدل گئے، کوئی برائی ان کے قریب نہیں آئی اور انہوں نے اللہ تعالی کی خوشنودی کے مطابق عمل کیا اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے)

خطروں کی شناخت کرنا چاہئے تاکہ اس کا سامنا ہونے پر اضطراب اور پس و پیش کی کیفیت پیدا نہ ہو بلکہ راہ حل پہلے سے معلوم رہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان خطرات سے ہم بھی دوچار ہو چکے ہیں۔ ہم نے انہیں پہچان لیا، ان کے سلسلے میں تجربہ حاصل کر لیا۔ اللہ تعالی کی مرضی، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی قیادت اور عوام کی بصیرت و فداکاری کے ذریعے ہم ان کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ البتہ دشمن کی جانب سے سازشیں اور ہماری قوم کی استقامت آج بھی جاری ہے۔

میں ان خطرات کو دو قسموں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک تو وہ خطرات ہیں جن کی جڑیں ہماری اندرونی صفوں میں موجود ہیں اور ان کا سرچشمہ خود ہماری کمزوریاں ہیں اور دوسرے وہ خطرات جن کی منصوبہ بندی براہ راست دشمن کر رہے ہیں۔

اول الذکر خطرات کے زمرے میں اس احساس اور تصور کا حوالہ دیا جا سکتا ہے کہ ڈکٹیٹر حکومت کے گر جانے کے بعد معرکہ سر ہو گیا۔ فتح کے احساس سے پیدا ہونے والا اطمینان اور اس کے بعد جوش و جذبے کا کم ہونا اور ارادوں کا کمزور پڑنا سب سے پہلا خطرہ ہے۔ یہ خطرہ اس وقت اور بھی ہولناک ہو جاتا ہے جب کچھ افراد حاصل ہونے والے مال غنیمت میں اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ جنگ احد کا واقعہ اور درے پر تعینات سپاہیوں کا مال غنیمت پر ٹوٹ پڑنا جو مسلمانوں کی شکست کا باعث بنا اور اللہ تعالی نے فوجیوں کی سرزنش کی ایک ایسی یادگار مثال ہے جو کبھی بھی فراموش نہیں کیی جانی چاہئے۔ مستکبرین کی ظاہری ہیبت سے مرعوب ہو جانا اور امریکہ اور دیگر مداخلت پسند طاقتوں سے خوفزدہ ہو جانا اسی زمرے میں آنے والا دوسرا بڑا خطرہ ہے جس کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ شجاع دانشوروں اور نوجوانوں کو چاہئے کہ دلوں سے یہ خوف مٹا دیں۔ دشمن پر بھروسہ کرنا اور اس کے وعدوں، مسکراہٹوں اور حمایت کے دام میں آ جانا بھی بہت بڑا خطرہ ہے جس سے خاص طور پر رہنماؤں اور اہم شخصیات کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ دشمن چاہے جیسا لبادہ اوڑھ کر آئے خاص نشانیوں کی بنیاد پر اسے پہچان لینا چاہئے اور اس کے مکر و حیلے سے، جو بسا اوقات ظاہری دوستی اور امداد کی آڑ میں چھپے ہوتے ہیں، قوم اور انقلاب کی حفاظت کرنا چاہئے۔ اس کا دوسرا رخ خود فریبی میں مبتلا ہوکر دشمن کو غافل سمجھ لینا ہے۔ شجاعت کے ساتھ ساتھ تدبر سے کام لینا چاہئے۔ شیاطین جن و انس کے مقابلے میں ضروری ہے کہ انسان اپنے وجود میں ودیعت کر دی جانے والی اللہ تعالی کی نعمتوں کو بروئے کار لائے۔ انقلابیوں کے درمیان اختلاف بھڑکانا، انہیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دینا اور مجاہدین کے محاذ میں رخنہ اندازی کرنا بھی بہت بڑی تشویش کی بات ہے جس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہئے۔

دوسرے قسم کے خطرات کا جہاں تک تعلق ہے تو علاقے کی قوموں نے مختلف واقعات میں ان کا تجربہ کیا ہے۔ سب سے پہلا خطرہ ان عناصر کو اقتدار میں پہنچانا ہے جو امریکہ اور مغرب کے بڑے وفادار ہیں۔ مغرب کی چال یہ ہے کہ جب اس کے اشارے پر کام کرنے والے مہروں کا ایک ایک کرکے گرنا ناگزیر ہو گیا ہے تو نظام کی بنیادی شکل اور اقتدار کے اصلی ستونوں کو اسی طرح برقرار رکھے اور اس جسم پر بس ایک نیا چہرہ لگا دے جس سے اس کے تسلط کی بساط بچھی رہے۔ یہ در حقیقت انقلابیوں کی مجاہدت و مساعی کے رائیگاں چلے جانے کے معنی میں ہے۔ اس مرحلے میں اگر مغرب کو عوام کی ہوشیاری و پائيداری کا سامنا کرنا پڑے تو وہ عوام کے سامنے مختلف گمراہ کن متبادل راستے پیش کرنے لگتا ہے۔ اس ڈرامے میں ممکن ہے کہ ایسے آئین اور حکومتی ڈھانچے کی تجویز پیش کی جائے جو اسلامی ممالک کو ایک بار پھر مغرب کے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی چنگل کا اسیر بنا دے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انقلابیوں کی صفوں میں داخل ہوکر غیر مطمئن حلقوں کو تقویت پہنچانے اور انقلاب کے اصلی حلقوں کو حاشئے پر ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ یہ بھی در حقیقت مغربی تسلط کی بحالی اور انقلاب کے اصولوں سے بیگانہ اور ملمع کاری شدہ انہی مغربی طرز کے ڈھانچوں کی واپسی کی راہ ہموار کرنے اور سرانجام حالات پر مغرب کا کنٹرول بحال ہو جانے سے عبارت ہے۔

اگر یہ چال بھی ناکام ہو گئی تو تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ بد امنی پھیلانے، دہشت گردانہ کارروائیاں کروانے، مختلف ادیان کے پیروکاروں، قومیتوں، قبائل، پارٹیوں حتی ہمسایہ قوموں اور حکومتوں کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانے جیسی روشیں اختیار کی جا سکتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی ساتھ اقتصادی پابندیوں، قومی سرمائے کو سیل کرنے اور چاروں طرف سے تشہیراتی یلغار کا راستہ اپنایا جا سکتا ہے۔ ان کا مقصد عوام کو مایوس اور خستہ حال بنا دینا اور مجاہدت پر نظر ثانی کے لئے مجبور کر دینا ہے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ایسا ہو جانے کی صورت میں انقلاب کو شکست دینا ممکن اور آسان ہو جاتا ہے۔ مقبول عام نیک عمل شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ یا ان میں بعض کو بدنام کرنا اور کمزور افراد کو خریدنا بھی مغربی طاقتوں اور تہذیب و اخلاق کے بلند بانگ دعوے کرنے والی حکومتوں کے جانے پہچانے حربے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران میں جاسوسی کے اڈے کے جو دستاویزات انقلابیوں کے ہاتھ لگے، ان سے پتہ چلا کہ یہ سازشیں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کی جانب سے ایرانی قوم کے خلاف تیار کی گئی تھیں۔ ان کے لیے انقلابی ممالک میں رجعت پرستی اور پٹھو حکومتوں کو بحال کرنا ایک ایسا اصول ہے جو ان تمام شرمناک طریقوں کو جائز بتاتا ہے۔

3- اپنی بات کے آخر میں میں ایران میں ہم لوگوں کے ذاتی تجربے اور مشاہدے نیز دیگر ممالک میں رونما ہونے والے واقعات کے بغور جائزے کے سبب حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر کچھ نصیحتیں آپ کی صوابدید اور انتخاب اور آرا کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔ بلاشبہ ہر چیز میں اقوام اور ممالک کے حالات یکساں نہیں ہیں تاہم کچھ ایسی واضح باتیں ہیں جو سب کے لیے مفید ہو سکتی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی پر توکل کر کے، قرآن مجید میں کیے جانے والے نصرت الہی کے ٹھوس وعدوں پر حسن ظن رکھ کر اور عقل، عزم اور شجاعت سے استفادہ کرکے ان تمام رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکتا ہے اور کامیابی کے ساتھ ان پر فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ البتہ آپ لوگوں نے جس کام کے لیے کمر ہمت باندھی ہے وہ بہت عظیم اور فیصلہ کن ہے بنابریں اس کے لیے بڑی بڑی مشکلات بھی برداشت کرنی ہوں گي۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَقْصِمْ جَبَّارِي دَهْرٍ قَطُّ إِلَّا بَعْدَ تَمْهِيلٍ وَ رَخَاءٍ وَ لَمْ يَجْبُرْ عَظْمَ أَحَدٍ مِنَ الْأُمَمِ إِلَّا بَعْدَ أَزْلٍ وَ بَلَاءٍ وَ فِي دُونِ مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ عَتْبٍ وَ مَا اسْتَدْبَرْتُمْ مِنْ خَطْبٍ مُعْتَبَر.. (اللہ تعالی نے دنیا کے کسی بھی جابر کو مہلت اور آسانی دئے بغیر تباہ نہیں کیا اور اللہ نے کبھی کسی قوم کی شکستہ ہڈیوں کو اس وقت تک نہیں جوڑا جب تک اسے سختیوں کے ایام سے نہیں گزارا۔ جو کچھ سختیاں تمہیں در پیش ہوتی ہیں اور جو اچھے دن گزر چکے ہوتے ہیں ان میں تمہارے لئے عبرتیں ہیں)

اہم نصیحت یہ ہے کہ اپنے آپ کو ہمیشہ عمل کے میدان میں سمجھیں:

فاذا فرغت فانصب،



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next