اسلامی بیداری عالمی کانفرنس تہران



جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے حالات سامراجی طاقتوں کے خلاف اور اسلامی تحریک کے موافق ہوتے جا رہے ہیں۔

حتمی ہدف، متحدہ امت اسلامیہ اور دین و عقل و علم و اخلاق کی بنیاد پر جدید اسلامی تمدن کی تعمیر ہونا چاہئے۔

درندہ صفت صیہونیوں کے چنگل سے فلسطین کی رہائی بھی بہت بڑا ہدف ہے۔ بلقان، قفقاز اور مغربی ایشیا کے ممالک اسی سال کے بعد سابق سوویت یونین کے چنگل سے آزاد ہوئے تو مظلوم فلسطین ستر سال بعد ظالم صیہونیوں کے چنگل سے کیوں نہیں آزاد کرایا جا سکتا؟

اس وقت اسلامی ممالک کی نوجوان نسل میں یہ صلاحیت ہے کہ بڑے کارنامے سرانجام دے۔ آج کی نوجوان نسل اپنے اسلاف کے لئے باعث افتخار ہے۔ بقول ایک عرب شاعر کے؛

قالوا: ابوالصَّخر مِن شَیبان قُلتُ لَهُم کلاّ لَعمَری ولکن منهُ شیبانٌ

وَ کَم اَبٍ قد عَلاَ بِابنٍ ذُری شَرَفٍ کما عَلا برسول الله عدنانٌ

(لوگوں نے کہا کہ ابو الصخر (بیٹا) کا وجود شیبان (باپ) سے ہے تو میں نے ان سے کہا کہ ہرگز نہیں شیبان کا وجود بھی ابو الصخر سے ہو سکتا ہے کیونکہ کتنے باپ ایسے ہیں جو اپے باشرف بیٹے کی وجہ سے معروف ہوئے جیسا کہ رسول خدا کی وجہ سے عدنان کو رفعت ملی)

اپنی نوجوان نسل پر اعتماد کیجئے۔ اس کے اندر خود اعتمادی بڑھائیے، اسے تجربہ کار اور کہنہ مشق افراد کے تجربات سے بہرہ مند کیجئے۔

یہاں دو اہم نکات ہیں؛

ایک تو یہ کہ انقلاب لانے والی اور آزادی حاصل کرنے والی قوموں کی ایک اہم ترین خواہش ملک کا نظم و نسق چلانے میں عوام کا موثر کردار ہے اور چونکہ وہ اسلام کو مانتی ہیں لہذا ان کی پسند اسلامی جمہوری نظام ہے۔ یعنی عہدیداروں کا انتخاب عوام کے ذریعے ہوگا اور معاشرے میں ان اصولوں اور اقدار کی بالادستی قائم کی جائے گی جو اسلامی تعلیمات اور شریعت سے ماخوذ ہیں۔ یہ ہدف مختلف ممالک میں حالات کے تقاضوں کے مطابق مختلف شکلوں اور انداز میں حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں مکمل احتیاط رکھنے کی ضرورت ہے کہ غلطی سے مغرب کی لبرل ڈیموکریسی اس کی جگہ نہ لے لے۔ ان دونوں مکاتب فکر کے درمیان فرق کو اور بھی واضح کرنا چاہئے۔ انتہا پسندانہ مذہبی تعصب جو کورانہ تشدد سے جڑا ہوتا ہے پسماندگی اور انقلاب کے اعلی اہداف سے دوری کا باعث ہے اور یہ چیز عوام کو برگشتہ اور نتیجے میں انقلاب کو شکست خوردہ بنا دیتی دی۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی بیداری کی بات کوئی غیر واضح اور مبہم بات نہیں ہے جس کی منمانی تفسیر کر دی جائے۔ یہ صاف طور پر نظر آنے والی اور محسوس کی جانے والی عینی حقیقت ہے جو فضا میں پھیل چکی ہے، عظیم انقلابات برپا کر رہی ہے اور دشمن محاذ کے خطرناک مہروں کو سرنگوں کرکے میدان سے باہر کر چکی ہے۔ اس کے باوجود تغیرات جاری ہیں جنہیں صحیح سمت دینے اور درست انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ گفتگو کے آغاز میں جن آیات کی تلاوت کی گئی وہ ہمیشہ کے لئے اور خاص طور پر موجودہ حساس اور تقدیر ساز دور کے لئے انتہائی کارساز اور کامل دستور العمل ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخاطب کرکے بیان کیا گيا ہے لیکن در حقیقت یہ خطاب ہم سب سے بھی ہے۔ ان آیات میں سب سے پہلے تقوی کی اس کی معنوی رفعت و گیرائی کے ساتھ سفارش کی گئي ہے۔ اس کے بعد کافروں اور منافقوں کی سرپیچی و خودسری، وحی الہی کی پیروی اور سرانجام اللہ پر توکل اور اعتماد کا ذکر ہے۔

میں ان آیتوں کو ایک بار اور دوہرانا چاہوں گا؛

 

بسم‌الله‌الرحمن‌الرحیم يا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ ‌اللَّهَ وَ لا تُطِعِ الْكافِرينَ وَ الْمُنافِقينَ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليماً حَكيماً(1) وَ اتَّبِعْ ما يُوحى‏ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ إِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعْمَلُونَ خَبيراً (2) وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَ كَفى‏ بِاللَّهِ وَكيلاً.

 

والسلام علیکم و رحمةالله

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8