شفاعت وھابیوں کی نظر میں



 

وھابیوں نے جس کے بارے میں بہت زیادہ شور و غل مچایا اورجسے تکفیر و تفسیق کی دلیل قرار دیتے ھیں ان میں سے ایک مسئلہٴ شفاعت بھی ھے تقریباً محمد بن عبد الوھاب کی ”کشف الشبھات“ اسی مسئلہ کے متعلق، پوری کتاب گھما پھرا کر لکھا ھے جیسا کہ ھم پھلے بھی اس سے چند چیزیںنقل کر چکے ھیں اور اسی طرح اس کے پوتے شیخ عبد الرحمٰن آل الشیخ نے جو کتاب ”التوحید“ لکھی اور اس کی شرح ”فتح المجید“ کے نام سے منتشر ھوئی ھے اسی مسئلہٴ شفاعت سے مخصوص ھے۔

ھماری نظر میں مسئلہٴ شفاعت جو کہ ”بحث ِقیامت “کی فروعات میں سے ھے بہت ھی وسیع و پیچیدہ مسئلہ ھے اس کے لئے ایک مستقل رسالہ اور الگ سے اس مسئلہ پر کتاب تالیف کی جائے تا کہ اس کے تمام نشیب و فراز اچھی طرح سے روشن ھو جائیں اور منکرین و مخالفین کے شبھات و اعتراضات کا جواب دیا جاسکے۔

اگر چہ پھلے ھم نے مسئلہٴ شفاعت ، درخواست مغفرت ، اولیاء خدا سے طلب حاجت اور اس کے مانند مسائل ، میں ابن تیمیہ کی آراء پر جرح و بحث و نقد کیا ھے لیکن چونکہ وھابیوں کی کتابوں میں (جیسا کہ ھم پھلے کہہ چکے ھیں) ان مسائل کے متعلق مختص ایک مستقل بحث پائی جاتی ھے اور یہ وھابیوں کے جنجالی ترین اور شوروغل والے مباحث و مسائل ھیں جن کو اصطلاح میں فرھنگی معرکہ اور آئیڈیا لوزی !! کا نام دیتے ھیں۔

اس لئے ھم بھی اختصار کا خیال رکھتے ھوئے اور اس کتاب کی مناسبت کو خاطر میں رکھتے ھوئے ضرورت کے مطابق خصوصاً مسئلہٴ شفاعت کے بارے میں بحث کریں گے اور مفصل و وسیع بحث و انشاء اللہ کسی اور فرصت کے وقت بیان کریں گے۔

پیغمبر اسلام(ص) کے زمانے سے لیکر آج تک مسلمانوںکی تاریخ اور ان کی سیرت اس بات پر شاھد ھے کہ ھمیشہ اور ھر دور میں شفاعت حق اور صحیح رھی ھے اور ھمیشہ ھر حال میں، حیات و ممات کے بعد بھی مسلمان، اولیاء خدا و بندگان خدا سے شفاعت طلب کرتے رھے ھیں، کسی اسلامی دانشمنداور مفکر نے درخواست شفاعت کو اصولِ اسلام کے خلاف نھیں جانا ھے یھاں تک کہ آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ نے اس مسئلہ (شفاعت) کی مخالفت کی اور اس کے بعد محمد ابن عبد الوھاب نجدی ، جو کہ وھابیت کا بانی ھے، اس کی پیروی کی اور شفاعت کے خلاف علم بلند کیا۔

وھابیوں کا دوسرے اسلامی فرقوں سے ایک نقطہٴ پر اختلاف یہ بھی ھے کہ مسلمانان عالم نے شفاعت کو ایک اصل اسلامی کی حیثیت سے قبول کر لیا ھے ، وہ کہتے ھیں کہ قیامت کے دن گنھگاروںکے لئے شافعین حضرات شفاعت کریں گے اور پیغمبر اسلام(ص) کا شفاعت کرنے میں زیادہ حصہ ھے اور ساتھ ھی یہ بھی کہتے ھیں کہ ”ھم ھرگز یہ حق نھیں رکھتے کہ اس دنیا میں ان سے شفاعت طلب کریں“

اور اس بارے میں اتنے افراط سے کام لیا ھے کہ ھماری زبان ان کی باتوں کو نقل کرنے سے عاجز ھے، اور ھم نے اس کتاب کے مقدمہ اور بعض حاشیے پر جبراً و قھراً ان کی شرم آور باتوں کی طرف اشارہ کیا ھے، ان کے کلام کا خلاصہ یوں ھے کہ:

پیغمبر اسلام(ص) اور دوسرے پیامبران اور فرشتے و اولیا خدا قیامت کے دن ”حق شفاعت“ رکھتے ھیں لیکن ضروری ھے کہ شفاعت ”مالک شفاعت“ و ”اذن شفاعت دینے والے“ سے جو کہ خدا ھے، طلب کریں اور کھیں: ”پروردگارا ! پیغمبر(ص) اور دیگر صالح بندوں کو قیامت کے دن ھمارا شفیع قرار دے“ لیکن ھم کو کوئی حق نھیں پھونچتا کہ ھم کھیں: ”اے پیغمبر(ص) خدا ھم آپ(ص) سے اپنے حق میں شفاعت طلب کرتے ھیں“ چونکہ شفاعت ایسی چیز ھے کہ خدا کے علاوہ کوئی اس پر قادر نھیں ھے۔

وھابیوں نے پنجگانہ دلیلوں کے ذریعہ شافعین کی شفاعت کو ممنوع قرار دیا ھے، ھم ان کے دلائل پر تحقیق سے پھلے، شفاعت کو قرآن و سنت و عقل کے مطابق بحث کرتے ھیں پھر اس کے بعد ان کے دلائل پر تنقید اور جواب پیش کریں گے۔



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next