شفاعت وھابیوں کی نظر میں



”مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہِ“[9]

”جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے خدا کی اطاعت کی “

اس طرح ملائکہ کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے :

”لَا یَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاٴَمْرِہِ یَعْمَلُوْنَ“[10]

یعنی ملائکہ میں سے کوئی بھی مستقل ارادہ نھیں رکھتا بلکہ یہ وھی ارادہ کرتے ھیں کہ جس چیز کا خدا نے ارادہ کیا ھے ۔

سادہ او رآسان زبان میں عرض کریں : چونکہ انبیاء اور اولیاء علیھم السلام خداوندعالم کے مقرب نبدے ھیں اور خدا کی بارگاہ میں قدر ومنزلت رکھتے ھیں لہٰذا اگر کوئی ان کو کسب فیض میں واسطہ قرار دے اور اس طریقہ سے خداوندعالم سے اپنی حاجت طلب کرے تو اس کا یہ عمل ”شرک“ نھیں ھوگا اور ”توحید“ سے بالکل منافات نھیں رکھتا۔

حقیقت تو یہ ھے کہ کوئی بھی عاقل انسان ”واسطہ“ اور ”وسیلہ“ کو خدا کا شریک نھیں مانتا کیونکہ واسطہ اور وسیلہ ایک ایسا راستہ ھے کہ جس کے ذریعہ توسل کرنے والا متوسل الیہ(خدا) سے ربط دیتا ھے اور عقلی حکم کے مطابق ”رابط“ (رابطہ کرنے والا) ”مقصد اور مقصود “ کے علاوہ ھے ،(یعنی دونوں ایک چیز نھیں ھیں) مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی مالدار اوردولت مند کے سامنے کسی فقیر کے لئے ”شفاعت“ کرے او را سکے ذریعہ سے فقیر کو کچھ دلوائے تو کوئی بھی عاقل انسان بہ نھیں کھے گا کہ جو کچھ فقیر کو ملا ھے وہ دولت مند اور شفیع(دونوں) کا عطیہ ھے بلکہ اس موقع پر یھی کھا جائے گا کہ دولت مند ”صاحب عطا “او رشفاعت کرنے والا ”واسطہ“ اور ”رابط ھے۔[11]

 

 

[1] سورہٴ زخرف آیت ۸۶۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next