شفاعت وھابیوں کی نظر میں



وھابیوں کو ھمارا جواب

اگر اس آیت کے جملوں پر توجہ کریں اور غور وفکر سے کام لیا جائے تو واضح ھے کہ اس آیت کا مقصد لکڑی ، پتھر او رلوھے کے بتوں سے شفاعت کی نفی کی گئی ھے نہ یہ کہ ان حقیقی شافعین سے شفاعت کی نفی کی گئی ھو جن کی شفاعت کے سلسلہ میں دوسری آیات موجود ھیں کیونکہ:

اول: ”لَایَمْلِکُونَ“ اور ”لَا یَعْقِلُونَ“ جملے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ شفاعت کا حق ان کا ھے کہ جو ”حق شفاعت“ رکھتے ھوں، او راپنے کاموں سے بھی آگاہ ھوں،

اورگذشتہ آیات میں جن بتوں کا تذکرہ ھے ان میں دونوں شرطوں میں سے کوئی بھی شرط نھیں ھے ، (وہ شرطیں یہ ھے :نہ ھی اپنے کاموں سے آگاہ ھیں اور نہ ھی شفاعت کے مالک ھیں) لہٰذا آیت کے اس حصہ ”قُلْ لِلّٰہِ الشَّفَاعَةُ جَمِیْعاً“ کے معنی یہ ھونگے کہ:شفاعت خدا کے لئے ھے نہ کہ لکڑی اور پتھر وں کے بتوں کیلئے ،گویا اس طرح معنی کئے جائیں :”ِللّٰہِ الشَّفَاعَةُ جَمِیعاً لَا للِاوْثَانِ وَالاَصْنَامِ”(یعنی شفا عت کا ما لک خدا ھے ، نہ کہ بت)

اور شفاعت کا مالک صرف خدا ھے اولیاء الہٰی شفاعت کے مالک نھیں ھیں بلکہ شفاعت کے بارے میں خدا کی طرف سے ان حضرات کو اجازت دی گئی ھے ، لہٰذا کوئی مانع نھیں ھے کہ ”شفاعت کا مالک“ خداھو اور اولیاء الٰھی ”خدا کی اجازت سے“ شفاعت کریں۔

دوسرے : مذکورہ آیت کے جملہ کا مقصد یہ نھیں ھے کہ فقط اور فقط خدا شفیع ھے اور غیر خدا کوئی شفیع نھیں ھے، کیونکہ اس میں کوئی شک نھیں کہ خداوندکریم کسی کے بارے میں شفاعت نھیں کرے گا بلکہ آیت کا مقصد یہ ھے کہ خدا وندکریم اصل شفاعت کا مالک ھے اور دوسرے حضرات اس کی اجازت سے شفاعت کریں گے ، مطلب یہ ھے کہ خداوندعالم کا یہ حق ”اصالةً “ ھے اور دوسروں کو یہ حق ”نیابتاً “ دیا گیا ھے ، لہٰذا مذکورہ آیت وھابیوں کے اعتراض کو ثابت نھیں کرتی ۔

مردوں سے شفاعت کی درخواست کرنا ،لغو ھے

وھابی کہتے ھیں : مرنے کے بعد روح انسان باقی نھیں رہتی ، اور انسان کے مرنے کے ساتھ ساتھ اس کی روح بھی نابود ھوجاتی ھے ۔

اسی وجہ سے یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ انبیاء(ع) اور اولیاء الٰھی نیز خدا کے نیک وصالح بندوں کی جسمانی موت کے ساتھ ساتھ ان کی روح بھی نابود ھوجاتی ھے او رجو چیز موجود نھیں ھے اس سے مدد اور شفاعت چاھنا ، عقل کے خلاف ھے ۔!!

وھابیوں کا ھمارا جواب :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next