شفاعت وھابیوں کی نظر میں



اولیا ء خدا سے شفاعت کے جواز پر دلائل

اگر” حقیقت شفاعت“ کو گنھگاروں کے حق میں شفیع کی دعا جانیں،اور یھی ایک مستحسن و پسندیدہ امر ھے جیسے کسی برادر مومن سے درخواست دعا کرنا، اور پیغمبروں و اولیا ء خدا سے درخواست دعا کرنا، تو عقلی لحاظ سے اس میں کسی طرح کی کوئی حرمت و ممانعت نھیں دکھائی دیتی۔

اگر وھابی حضرات اپنے برادر مومن سے درخواست دعا کو جائز مانتے ھیں توان کو چاھیئے کہ زندہ شفیع سے درخواست شفاعت کو بغیر کسی پس و پیش کے جائز و صحیح مانیں، اور اگر زندہ انسان سے درخواست شفاعت کو جائز و صحیح نھیں مانتے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ وہ لوگ شفاعت کے معنی ”دعا“کے لیتے ھیں۔

اسلامی احادیث اور سیرت صحابہ ،درخواست شفاعت کو بہت ھی حسن اسلوب و روشن طریقے سے ثابت کرتی ھے کہ ھم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔

۱۔ انس بن مالک کہتے ھےں:

”سَاَلتُ النبَِّی(ص) اَن یَشفَعَ لِی یَومَ القِیَامَةِ فَقَالَ: اَنَا فَاعِلٌ فَقُلتُ فَاَینَ اَطلُبُکَ؟ فَقَالَ: عَلَی الصِّرَاطِ“

پیغمبر اسلام(ص) سے میں نے شفاعت کی درخواست کی کہ روز قیامت میری شفاعت فرمائیں گے تو رسول اسلام(ص) نے میری درخواست کو قبول فرمایا، انس نے ظرافت طبیعت کے ساتھ رسول اسلام(ص) سے درخواست شفاعت کی اور اس کی جگہ کے بارے میں سوال کیا ،رسول اسلام(ص) بھی فرماتے ھیں کہ ”صراط پر“ اور انس کے دل میں ھرگز یہ خطور بھی نھیں پیدا ھوا کہ یہ کام اصول ِتوحید کے خلاف ھے پیغمبر اسلام(ص) بھی اس کی شفاعت قبول فرماتے ھیں اور اسے خوشخبری دیتے ھیں۔

۲۔ سواد بن قارب جو پیغمبر اسلام(ص) کے مدرگاروں میں سے تھے، اپنے اشعار کے ضمن میں رسول اسلام(ص) سے شفاعت طلب کرتے ھیں ، فرماتے ھیں:

وَ کُنْ لِیْ شَفِیْعاً یَوْمَ لَا ذُوْ شَفَاعَةٍ

بِمُغْنٍ فَتِیْلاً عَنْ سُوَادِ بِنْ قَارِبِ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next