شفاعت وھابیوں کی نظر میں



اور دوسری وہ تمام علتیں جو خدا اور دوسرے معلول کے درمیان ھیں ان کو ”واسطہ“ کہتے ھیں جن کا فعل اور اثر خدا کا فعل واثر ھے او رکسی چیز کا معلول کے وجود کو فیض پھنچانے میں واسطہ ھونا شرکت اورتاثیر میں استقلال کے علاوہ دوسری چیز ھے۔

مثال کے طور پر ”واسطہ“ اور ”ذی الواسطہ“ کے درمیان موجود نسبت جیسے یہ کہ کوئی انسان کسی قلم سے کوئی چیز لکھ رھا ھو، تو اس کے بارے میں یہ کھنا صحیح ھے کہ قلم لکھ رھا ھے اور ھاتھ بھی لکھ رھا ھے او رانسان بھی لکھ رھا ھے ، جبکہ یہ ایک کام ھے لیکن اس کی نسبت تین چیزوں کی طرف دی گئی ھے ، لیکن حقیقت یہ ھے کہ لکھنے میں مستقل تاثیر انسان کی ھے اور ھاتھ اور قلم لکھنے میں ”واسطہ“ ھےں ”شریک “نھیں ھیں ۔

قرآن کریم میں بھی ایسی بہت سے آیات موجو ھیں جن میں ان تمام اعمال وآثار کی نسبت مخلوق کی طرف دی گئی ھے جبکہ اپنے احتجاج میں علیت او رمعلولیت کے عمومی قانون کو قبول کرتی ھے حالانکہ تاثیر میں استقلال فقط اور فقط خدا سے مخصوص ھے ۔

مثال کے طور پر یہ آیہٴ شریفہ ”وَمَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمیٰ“[6]

”اے میرے رسول آپ کنکریاں نھیں پھینک رھے تھے خدا کنکریاں پھینک رھا تھا“

اور یہ آیہٴ مبارکہ ”قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبَھُمُ اللّٰہُ بِاٴَدِیَکُمْ “[7]

”کفار ومشرکین سے جنگ کرو کہ خداوندعالم تمھارے ذریعہ ان کو عذاب دینا چاہتا ھے “

نیز یہ آیت کریمہ” إنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبُہُمْ بِہَا“[8]

”خدا چاہتا ھے کہ ا سکے ذریعہ ان پر عذاب کرے “

لہٰذا وہ تمام چیزیں جو ”وسیلہ“ اور ”واسطہ“ کے سلسلے میں کھی گئی ھیں امام سے حاجت طلب کرنا اس وقت شرک ھوگا جب حاجت طلب کرنے والا امام (ع) کو تاثیر میں مستقل سمجھے او را س کو ذاتی قدرت کا مالک جانے، لیکن اگر خدا کو تاثیر کا مالک سمجھے او راما م کو صرف ”وسیلہ“ او رواسطہ قرار دے، تواس صورت میں واسطہ کو پکارنا بھی صاحب واسطہ (خدا) کو پکارنا ھوگا، جس طرح واسطہ کی اطاعت صاحب واسطہ کی اطاعت ھے جیسا کہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ھے :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next