روز قیامت اعمال کا مجسم ھونا



میرے لئے اللہ سے وسیلہ کی دعا کرو کیونکہ جنت میں وسیلہ ایک ایسا درجہ ھے جو ایک بندہ کے علاوہ کسی کو نھیں مل سکتا میں امید کرتا ھوں کہ وہ ایک بندہ میں ھوں۔

اسی طرح رسول اللہ(ص) سے اذان سننے کے وقت کی دعا میںنقل ھوا ھے: ”۔۔۔ آتِ مُحَمَّداً الوَسِیلَةَ۔۔۔۔“ اے اللہ رسول اللہ(ص) کو درجہٴ وسیلہ پر فائز کر۔

حضرت امیر المومنین(ع) رسول اسلام(ص) کے لئے دعا کرتے وقت یہ فرماتے ھیں :”وَشَرِّفْ عِندَکَ مَنزِلَتَہُ وَ آتِہِ الوَسِیلَةَ۔۔۔“ اے خدا اپنے نزدیک رسول اسلام(ص) کی منزلت کو بزرگ قرار دے اور ان کو درجہٴ وسیلہ سے سرفراز فرما۔۔۔

غرض یہ کہ تمام کائنات یھاں تک کہ اشرف موجودات میں سے خود رسول اعظم(ص) ھیں وہ بھی خدا سے تقرب حاصل کرنے میں ”ابتغاء وسیلہ“ یعنی وسیلہ تلاش کرتے ھیں یہ اور بات ھے کہ آنحضرت(ص) کا وسیلہ دیگر ممکنات جھان کے وسیلہ سے بہت مختلف ھے اوروہ وسیلہ ھماری سعی اور کوشش سے بڑھ کر ھے۔

اسی لئے تمام موجودات جھان اپنے حدود کے دائرے میں رہ کر سب کے سب ایک دوسرے کے محتاج ھیں جیسا کہ خود قرآن کریم نے ارشاد فرمایا: ” یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّہِمُ الوَسِیلَةَ“یعنی وسیلہ کی تلاش میںر ھیں تاکہ اپنے پروردگار کا قرب حاصل کریں ، ھاں بس اسی لئے ھے کہ کائنات میں کوئی بھی موجود یہ صلاحیت نھیں رکھتاکہ رب حقیقی بن سکے یا مستقلاً مشکلات کو رفع کرسکے یامستقل طور پر کسی کو فیضیاب کرسکے۔

جبکہ معبودیت اور استقلال رحمت کے افاضہ کے لئے ، حکم عقل کے مطابق، قدرت مستقلہ اور موجود کے خصائص کی شان ”قائم بذات“ ھے اور وہ بھی ذات اقدس حضرت ”حق “ جل شانہ میں منحصر ھے اور بس۔

اور تمام موجودات جو کہ بذات خود فاقد ھستی و کمالات ھیں ضروری ھے کہ مبداٴ ھستی و منبع کمال سے ”ابتغاء وسیلہ“ کی راہ پر گامزن رھکر طلب فیض کریں ”اِتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوا اِلَیہِ الْوَسِیلَةَ“۔

اور جیسا کہ ھم نے کھا کہ لغت میں ”وسیلہ“ کے مختلف معانی بیان کئے گئے ھیں ان میں مناسب ترین معنی گذشتہ دو آیات ( آیت ۳۵ سورہٴ مائدہ و آیت ۷۵ سورہٴ اسراء )میں سیاق کلام کے لحاظ سے وہ وھی پانچواں معنی ھے، یعنی ”ھر وہ چیز جس کے ذریعہ دوسرے سے نزدیک ھوا جاسکے“

مخصوصاً پھلی آیت میں کہ اولاً حکم ”ابتغاء وسیلہ“ کے بعد، راہ خدا میں جھاد کا حکم دیا گیا ھے اور ثانیاً ”تقویٰ“ و ”ابتغاء وسیلہ“ اور ”جھاد“ کے نتیجہ کو ”فلاح“ و کامیابی ، جملہٴ ”لعلکم تفلحون“ کے ذریعہ بیان کیا جا رھا ھے۔

اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ فلاح و کامیابی ،وھی خدا کے قرب کا پا جانا ھے اور چونکہ ”مقصد“ اور ”نتیجہ“ میں مغایرت ھونی چاھیئے ضروری ھے کہ ”وسیلہ“ ایسی چیز ھوکہ آدمی کے لئے ممکن ھوسکے کہ اس کے ذریعہ ”قرب خدا“ و ”منزلت“ اور اس ”درجہ“ تک رسائی ھوسکے اور وہ وھی ”فلاح“ اور کامیابی ھے جو اس تک پھونچ سکے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next