روز قیامت اعمال کا مجسم ھونا



اور اسی طرح جھاد کا حکم حقیقت میں اس کے درپے وسیلہ کا حکم ھے (چاھے جھاد کو کفار کے ساتھ قتال کے معنی میں لیں، یا مطلقاً راہ خدا میں کوشش و سعی کے معنی میں لیں) پھر بھی وسیلہ اس کے اھم مصداق میں سے ھے اور چونکہ یہ مسلّم ھے کہ خود ”جھاد“ قرب خدا کے لئے عینی و خارجی تحقق نھیں ھے بلکہ ”قرب“ کے لئے ایک سبب و مقدمہ ھے تو پھر اس کا مطلب یہ ھوا کہ ”وسیلہ“ اس مذکورہ آیت میں ”قرب“ و”درجہ“ اور ”منزلت“ و ”چارہ جوئی“ جو کہ وسیلہ کے لغوی معنی ھیں، نھیں ھے۔

بلکہ صحیح و مناسب معنی اس آیہٴ شریفہ کا وھی ھے جو پانچواںمعنی بیان کیا گیا ھے یعنی ”ھر وہ چیز جس کے ذریعہ خدا تک رسائی ھوسکے"

اور اس وجہ سے بھی کہ کلمہٴ ”وسیلہ“ آیہٴ شریفہ میں مطلق اور کسی قید و تقیید کے بغیر آیا ھے اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ اس کے معنی میں وسعت و گستردگی ھے اور ھر طرح کا اعتقاد و عمل اور ھر چیز و ھر شخص جو کہ خدا سے ”قرب“ کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں، اطلاق ھوتا ھے، بطور مثال، ایمان ، پروردگار کی وحدانیت کا اعتقاد اور پیغمبروں کی رسالت کا اعتقاد و ایمان ،اور اسی طرح رسول اسلام(ص) کی پیروی و اطاعت ، واجبات کا انجام دینا مثلاً نماز، روزہ، حج، زکات و جھاد اور نادان لوگوں کو صلہٴ رحم کی ھدایت کرنا ، مریض کی عیادت کرنا وغیرہ نیک اور خداپسند اعمال یہ تمام کے تمام قرب خدا کے وسائل و اسباب ھیں۔

جیسا کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اِنَّ اَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِہِ المُتَوَسِّلُونَ اِلٰی اللّٰہِ سُبْحَانَہُ ، اَلاِیمَانُ بِہِ وَ بِرَسُولِہِ وَ الجِہَادُ فِی سَبِیْلِہِ… وَ کَلِمَةُ الاِخْلاَصِ …وَ اِقَامِ الصَّلوةِ …وَ اِیتَاءِ الزَّکَوةِ …وَ صَوْمِ شَھرِ رَمَضَان…َ وَ حَجُّ البَیتِ وَ اِعتِمَارُہ ُ…وَ صِلَةُ الرَّحم…ِ وَ صَدَقَةُ السِّرِّ وَصَدَقَةُ العَلَانِیَّةِ …وَ صَنَائِعُ المَعرُوفِ“

بیشک وسیلہ تلاش کرنے والوں کے لئے بہترین وسیلہ خدا تک رسائی کی خاطر ، اللہ پر ایمان اور اس کے رسول پر ایمان اور اس کی راہ میں جھاد، کلمہٴ اخلاص، اقامہٴ نماز، اداء زکات، رمضان المبارک کا روزہ، حج بیت اللہ اور عمرہ، صلہٴ رحم ، اللہ کی راہ میں مخفی اور علناً طریقے سے صدقہ دینا، اور دیگرنیک اور خداپسند اعمال سب کے سب خدا تک پھونچنے کے وسیلہ ھیں۔

اور اسی طرح انبیاء کی ذوات مقدسہ، اولیا خدا و مقربین بارگاہ خداوندی، ان کی معرفت اور ان لوگوں سے محبت کرنا، دعا و شفاعت طلب کرنا ان کے ذریعہ تقرب تلاش کرنا، یا ان سے منسوب چیزوں کی تجلیل کرنا، کسی بھی طریقے سے کیوں نہ ھو، مراقد مطھرہ کی زیارت کرنا اور ان کی قبور شریفہ جو کہ مسلّم مصداق ”تعظیم شعائر اللہ“ ھے اور بندگان خدا سے محبت و مودت کی روشن ترین دلیل اور ھادیان راہ حق کی تعالیم و مکتب کو عظمت دینے کے برابر ھے۔

روشن ھے کہ یہ تمام مذکورہ چیزیں کلمہٴ ”وسیلہ“ کے ”اطلاق“ کے لحاظ سے سب کی سب اس وسیع و عام مفھوم میں داخل ھیں،یعنی ان تمام امور پر، یہ عنوان صدق آتا ھے ”مَا یَتَقَرَّبُ بِہِ اِلٰی اللّٰہِ“ یعنی جس کے ذریعہ اللہ سے قریب ھوا جاسکے اور اس کی رضا و خوشنودی کو حاصل کرسکیں۔

اس بنا پر کوئی ھمارے پاس دلیل یا سبب نھیں ھے کہ کلمہٴ وسیلہ کے ”اطلاق“ سے چشم پوشی کریں اور اس کے مفھوم کو ایک یا چند مفھوم کے لئے مخصوص کریں جیسا کہ ”ابن تیمیہ“ اور اس کے پیروکار ”وھابیوں“ نے بغیر کسی دلیل کے تقیید و تخصیص کی ھے۔

۱) رسول خدا(ص) پر ایمان اور آنحضرت(ص) کی پیروی ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next