مدينه ميں تشريف آوری



مسلمانوں کی انتھک کوشش اور لگن سے یہ مسجد بن کر تیار ھوگئی، اس کی دیوار مٹی اور پتھروں سے بنائی گئی تھیں ستونوں کے لئے درخت خرما کے ستون لگائے تھے چھت بھی کھجور کے تختوں سے پاٹی گئی تھی اور مسجد کے ایک کونے میں کمرہ نما ایک جگہ مخصوص کی گئی تھی تاکہ وہ نادار اصحاب رسول جن کے پاس سر چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی یھاں قیام پذیر ھوں یھی وہ لوگ تھے جنھیں بعد میں اصحاب صفہ کھا گیا۔

اس مسجد کے بن جانے کے بعد مسلمانوں کو مرکزیت حاصل ھوگئی، چنانچہ عام مسلمان جن میں صاحب خانہ اور بے خانماں سب ھی شامل تھے بلا روک ٹوک یھاں جمع ھوتے اور عبادت و نماز باجماعت ادا کرنے کے علاوہ مسلمانوں کے اھم مسائل سے متعلق تبادلہ خیالات میں حصہ لیتے، اس کے ساتھ ھی وہ رسول خدا (ص) سے یا ان اصحاب سے جنھیں آنحضرت مقرر فرماتے احکام دین اور دیگر مسائل کی تعلیم حاصل کرتے۔

جب مسجد کی تعمیر مکمل ھوگئی تو اس کے اطراف میں رسول خدا اور اصحاب کے لئے اس طرح مکانات بنائے گئے کہ ھر گھر کا دروازہ مسجد کی جانب کھلتا تھا۔

کچھ عرصے کے بعد خداوند تعالیٰ کی طرف سے حکم ھوا کہ رسول خدا (ص) اور حضرت علی (ع) کے گھروں کے علاوہ جن لوگوں کے گھروں کے دروازے مسجد کی جانب کھلتے ھیں بند کردیئے جائیں، رسول خدا نے جب یہ حکم خداوند ی لوگوں تک پھونچایا تو بعض اصحاب کو یہ بات بھت گراں گزری، اور انھیں یہ گمان ھونے لگا کہ یہ فرق و امتیاز رسول خدا کا اپنا پیدا کیا ھوا ھے برادرانہ شفقت کار فرما ھے، لیکن رسول خدا نے انھیں اس خیال کا جواب دیتے ھوئے فرمایا: یہ فرمان میں نے اپنی طرف سے نھیں دیا ھے بلکہ یہ حکم خداوندی ھے۔ (بحار الانوار ج۱۹، ص۱۱۲)

رسول خدا نے یہ صریح و قطعی موقف اس وقت اختیار کیا جب کہ مسلمان بالخصوص مھاجرین خاص حساسیت اور نازک صورت حال سے دوچار تھے، اور انھیں پیغمبر سے یہ توقع تھی کہ ان کی دلجوئی کے ساتھ ھی ان پر دوسروں سے زیادہ لطف و عنایت فرمائیں گے، ان کے لئے یہ سعادت کسی طرح کم نہ تھی کہ ان کے گھروں کے دروازے مسجد کی جانب کھلتے ھیں، اس میں شک نھیں کہ رسول خدا کو صحابہ کرام سے تعلق تھا مگر یہ واقعہ اس حقیقت کا آئینہ دار تھا کہ رسول خدا کا تعلق خاطر اور جذبۂ لطف و عنایت حکم الٰھی کو ان تک پھونچانے میں مانع نھیں ھوسکا، اور کوئی چیز آنحضرت کو فرمان حق صادر کرنے سے روک نہ سکی۔

ب: رشتہٴ اخوت و برادری

اس میں شک نھیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے مکہ میں مسلمانوں کے درمیان رشتۂ اخوت و برادری بر قرار فرمایا لیکن ھجرت کرکے ان مسلمانوں کا مکہ سے مدینہ چلے آنا اور نئے اقتصادی و اجتماعی مسائل و حالات کا پیدا ھونا اس امر کا باعث ھواکہ مھاجر و انصاراور مسلمانوں کے درمیان نیا رشتۂ اخوت و برادری برقرار ھو، چنانچہ یھی وجہ تھی کہ آپ نے مسلمانوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا:

راہ خدا میں تم دو دو مل کر بھائی بھائی بن جاوٴ۔ (السیرة الحلبیہ ج۲، ص۹۰)

رسول خدا(ص) نے اپنے اس دانشمندانہ اقدام سے ان مھاجرین کے مسائل زندگی کو حل کردیا جو اپنی ھر چیز مکہ میں چھوڑ کر چلے آئے تھے اور اس طرح آنحضرت (ص)نے ان کے ارمان و آرزو اور دین و ایمان کو حفاظت میں لے لیا، اگرچہ مھاجرین اور انصار دو مختلف ماحول کے پروردہ تھے اور ان کے طرز فکر و معاشرت میں بھی نمایاں فرق تھا، لیکن آپ نے انھیں اپنی دانشمندی سے نہ صرف ایک جان و دو قالب کردیا بلکہ دونوں کے حقوق اور مراعات کو بھی مقرر اور مرتب فرمایا۔

رسول خدا(ص) نے مھاجرین اور انصار کے درمیان رشتہ اخوت اور برادری برقرار کرنے کے بعد حضرت علی (ع) کے دست مبارک کو اپنے دست متبرک میں لے کر فرمایا: ”ھذا اخی“ ”یہ میرا بھائی ھے“ السیرة الحلبیہ ج۲، ص۱۳۷ ،۱۳۹)

ج: یھودیوں کے ساتھ عھد و پیمان

رسول اکرم (ص) کے ھجرت کرنے سے قبل مقامی مشرکین کے علاوہ یھودیوں کے ”قبیلے بنی قینقاع، بنی نضیر، بنی قریظہ''نامی تین طائفے مدینہ میں آباد تھے، اور انھی کے ھاتھوں میں اس شھر کی صنعت و تجارت تھی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next