مدينه ميں تشريف آوری



”جیسے یہ موت کی طرف ھنکائے جارھے ھیں اور یہ حسرت سے دیکھ رھے ھیں۔“

بعض مورخین نے لکھا ھے کہ جو لوگ اس مقصد و منشاء کے مخالف تھے ان کی مخالفت بدبینی اور ایمان کی کمزوری کی بناپر نہ تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھیں چونکہ یہ یقین نھیں تھا کہ یہ جنگ وقوع پذیر ھوگی اسی لئے وہ ساتھ چلنے سے انکار کر رھے تھے، مگر اس بارے میں قرآن مجید کا صریح ارشاد ھے کہ۔۔۔ (المغازی واقدی ج۱، ص۲۱)

اگرچہ حق ان پر واضح و روشن ھوچکا تھا مگر اس کے باوجود انھیں اسے قبول کرنا گوارانہ تھا، ان کی دلیل یہ تھی کہ ھماری تعداد بھت کم ھے اور دشمن بھت زیادہ ھیں ایسی صورت میں ھم اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے مدینہ سے باھر کیسے جاسکتے ھیں، شاید ھمارے اس اقدام کو ھماری نادانی پر محمول کیا جائے، کیونکہ یہ بھی تو نھیں معلوم کہ یہ کاروان جنگ ھے یا قافلۂ تجارت؟ (مجمع البیان ج۳، ص۵۲)

دوسری دلیل جو اس حقیقت کو ثابت کرتی ھے کہ مسلمین و کفار کے درمیان یہ جنگ حکم الٰھی کا قطعی و حتمی نتیجہ تھی اور انھیں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دلا رھی تھی، یہ تھی کہ جنگ سے پھلے دونوں گروھوں میں سے ھر ایک کو دوسرے کی تعداد کم نظر آرھی تھی۔”و اذ یریکموھم اذا لتقیتم فی اعینھم قلیلا و یقلکم فی اعینھم۔“

”اس وقت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے مقابلے میں آئے انھیں تمھاری نگاھوں میں کم دکھایا اور تمھیں اس کی نگاھوں میں کم دکھایا۔“

دشمن کی تعداد کو قلیل کرکے دکھانے کی وجہ یہ تھی کہ اگر کچھ مسلمانوں کو دشمن کی تعداد، طاقت اور جنگی تیاری کا اندازہ ھوجاتا تو اس بات کا امکان تھا کہ جنگ میں سستی سے کام لیتے اور ان کے درمیان باھمی اختلاف پیدا ھوجاتا۔

”و لا ارئکھم کثیرا لفشلتم و لتنازعتم فی الامر“

”اگر کھیں وہ تمھیں ان کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ھمت ھار جاتے اور جنگ کے معاملے میں جھگڑا شروع کردیتے۔“

اس وقت سیاسی اور فوجی صورت حال ایسی تھی کہ اگر وہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کا وعدہ بھی کرتے تو وہ اس سے روگرداں ھوجاتے۔

”و لو تواعدتم لاختلفتم فی المیعاد“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next