مدينه ميں تشريف آوری



۴۔ جغرافیائی حالات اور شھروں کو متصل کرنے والے راستوں سے واقفیت، اس کے ساتھ ھی اطراف مدینہ میں آباد قبائل کے بارے میں معلومات حاصل کرنا۔

۵۔ قریش کو جنگ کی دھمکی دینا اور ان کے ارتباطی اور تجارتی راستوں کو غیر محفوظ بنانا اور دشمن کو مسلمان طاقت و قوت سے خبردار کرنا۔

تحویل کعبہ

پیغمبر اکرم (ص) مکہ میں اور ھجرت کے بعد مدینہ میں سترہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے رھے یھاں تک کہ بروز پیر نصف ماہ رجب سنہ ۲ ہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ جب آپ مسجد بنی سالم بن عوف میںجو کہ نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے پھلی مسجد تعمیر کی گئی تھی، نماز ظھر ادا فرما رھے تھے آپ(ص) کو یہ حکم دیا گیا کہ اپنا قبلہ تبدیل کردیں۔ (السیرة الحلبیہ۔ ج۲، ص۱۲۸)

جن وجوہ کی بناپر قبلہ تبدیل کیا گیا ان میں سے چند یہ تھیں

۱۔ ایک طرف تو رسول خدا (ص) پریھودی یہ اعتراض کرتے تھے کہ جب تم ھماری مخالفت کرتے ھو تو ھمارے قبلہ کی جانب رخ کرکے نماز کیوں پڑھتے ھو۔اس کے ساتھ ھی مسلمانوں سے یہ کھتے کھ

”اگر ھم حق پر نہ ھوتے تو تم ھمارے قبلہ کی جانب رخ کرکے نماز کیوں پڑھتے؟“ دوسری طرف مشرکین یہ طعنہ دیتے کھ”تم جبکہ قبلۂ ابراھیم کو ترک کرکے قبلۂ یھود کی طرف نماز پڑھتے ھو تو یہ کیسے دعویٰ کرتے ھو کہ ھم ملت ابراھیم (ع)پر قائم ھیں۔“ (حوالۂ سابق)

اس قسم کے اعتراضات اور طعنے رسول خدا (ص) کو سخت رنجیدہ اور آزردہ کرتے تھے، چنانچہ یھی وجہ تھی کہ آپ راتوں کو بارگاہ خداوندی میں دعا فرماتے اور مقام رب ذو الجلال کی جانب رخ کرکے اپنی آنکھیں آسمان کی جانب لگا دیتے تاکہ خداوند تعالیٰ کی جانب سے اس بارے میں کوئی حکم صادر ھو۔ (بحار ج۱۹، ص۲۰۱)

قرآن مجید نے رسول خدا (ص)کی اس ذھنی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ھے:

”قد نریٰ تقلب وجھک فی السماء فلنولّینّک قبلة ۔۔۔

(اے رسول!ھم آپ کی توجہ آسمان کی جانب دیکھ رھے ھیں لو ھم اس قبلہ کی طرف تمھیں پھیرے دیتے ھیں جسے تم پسند کرتے ھو۔ (سورہ بقرھ: ۱۴۴)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next