مدينه ميں تشريف آوری



اگر کھیں پھلے سے تمھارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرار داد ھو چکی ھوتی تو تم ضرور اس موقع پر پھلو تھی کرجاتے۔ (سورۂ انفال آیت ۴۴)

دوسری طرف اگر دشمن کو مسلمان طاقت و تعداد میں زیادہ نظر آتے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہ تھی کہ کفار مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے گریز کرجاتے اور اس تقدیر ساز جنگ کے لئے آمادہ نہ ھوتے۔

چنانچہ یھی وجہ تھی کہ خداوند تعالیٰ نے حالات ایسے پیدا کردیئے کہ اب دونوں گروھوں کے لئے اس کے علاوہ چارہ نہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے مقابل آجائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کریں تاکہ ارادۂ خداوندی حقیقت کی صورت میں جلوہ گر ھو۔

”لیقضی اللہ امرا کان مفعولا“

”تاکہ جو بات ھوئی تھی اسے اللہ ظھور میں لے آئے۔“

اس زمانے میں اسلامی معاشرے کی جو سیاسی و اجتماعی حالت تھی اگر ھم اس کا مطالعہ کریں تو ھم اس نتیجہ پر پھونچیں گے کہ اس وقت ایسی فاتحانہ جنگ کی اشد ضرورت تھی، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) جو تیرہ سال تک باآواز بلند اپنی امت کی اصلاح و نجات کے لئے دعوت اسلام دیتے رھے آپ کی اس صدائے حق و عدل کو معدودے چند افراد کے علاوہ نے نہ صرف سننا گوارا نہ کیا بلکہ ھر قسم کی ایذا و تکلیف پھونچا کر جلاوطنی کے لئے مجبور کردیا اور جو لوگ وھاں رہ گئے تھے وہ بھی سخت ایذا و آزار سے دوچار تھے اور ان پر ایسی سخت پابندیاں لگا رکھی تھیں کہ وہ ھجرت کرکے مدینہ بھی نھیں جاسکتے تھے۔(حوالہٴ سابق)

رسول خدا(ص) کو ھجرت کے بعد بھی دشمنوں نے چین کی سانس لینے نہ دیا۔ ابوجھل نے خط لکھکر آنحضرت(ص) کو یہ دھمکی دی کہ یہ مت سمجہ لینا کہ تم نے ھجرت کرکے قریش کے چنگل سے نجات پالی ھے، دیکھنا جلد ھی تم پر چاروں طرف سے قریش اور دوسرے دشمنوں کی طرف سے یلغار ھوگی اور یہ ایسا سخت حملہ ھوگا کہ تمھارا اور تمھارے دین اسلام کا نام صفحۂ ھستی سے نیست و نابود ھوجائے گا۔“ رسول خدا(ص) کو یہ خط جنگ شروع ھونے سے ”۲۹“ دن پھلے ملا تھا۔ (السیرة النبویہ ج۲، ص۱۴۴)

دوسری طرف انصار مسلمین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ھورھا تھا، انھیں جب بھی موقع ملتا اور جس وقت بھی وہ مناسب سمجھتے رسول خدا(ص) کے تحفظ اور آپ کے دین کی پاسداری کا اعلان کردیتے۔

مھاجرین نے ان مھمات و غزوات میں شرکت کرکے جو جنگ بدر سے پھلے وقوع پذیر ھوچکے تھے یہ ثابت کردیا تھا کہ وہ اب بھی حسب سابق اپنے ارادے پر قائم اور ھر قسم کی قربانی کے لئے تیار ھیں۔

دوسری طرف منافقین اور یھودیوں کی تحریک اپنا کام کر رھی تھی، ابتدا میں جب آنحضرت(ص) مدینہ تشریف لائے تو انھوں نے آپ کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا لیکن جب وہ اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ھوسکے تو مخالفت و سرکشی پر اتر آئے۔

رسول خدا(ص) نے بھی اٹھارہ ماہ سے زیادہ قیام کے دوران جھاں تک ھوسکتا تھا دشمن سے مقابلہ کے لئے فوج تیار کی۔

تمام پھلووٴں کو مدنظر رکھتے ھوئے کھا جاسکتا ھے کہ اب وہ وقت آن پھونچا تھا کہ رسول خدا(ص) وسیع پیمانے پر فتح مندانہ عسکری تحریک شروع فرمائیں اور دین اسلام کو گوشہ نشینی اور خفت و شرمساری کی حالت سے نکال کر اسے اجتماعی طاقتور و یلغاری تحریک میں بدل دیں تاکہ شرک کے دعویدار اچھی طرح سمجہ لیں کہ مکہ میں جو مسلمانوں کی حالت تھی اب وہ بدل چکی ھے اور اگر اس کے بعد مخالفت و خلل اندازی کی گئی تو وہ ھوں گے اور اسلام کی ایسی شمشیر براں ھوگی جس سے ان کی بیخ و بنیاد تباہ و برباد ھوکر رہ جائے گی کیونکہ یہ اقدام و ارادہ حق کی جانب سے ھے اور اس میں کوئی تبدیلی واقع نھیں ھوسکتی۔

”یرید اللّٰہ ان یحق بکلماتہ و یقطع دابر الکافرین“

”خدا اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت کردینا چاھتا ھے اور کافروں کے سلسلے کو قطع کردینا چاھتا ھے۔“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9