مدينه ميں تشريف آوری



۲۔ خداوند تعالیٰ قبلہ کا رخ تبدیل کرکے مسلمانوں کو آزمانا چاھتا تھا کہ یہ معلوم ھوجائے کہ کون لوگ حکم خدا کے مطیع اور رسول خدا(ص) کے فرمانبردار ھیں۔

”وما جعلنا القبلة التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علیٰ عقبیہ و ان کانت لکبیرة الا علیٰ الذین ھدی اللہ۔ (۲۹)“

(پھلے جس طرف تم رخ کرتے تھے اس کو تو ھم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ھے اور کون الٹا پھر جاتا ھے۔ یہ معاملہ تھا بڑا سخت مگر ان لوگوں کے لئے کچھ بھی سخت نہ ھوا جو اللہ کی جانب سے فیضیاب تھے۔)

۳۔ بعض روایات اور تاریخ کی کتابوں میں اس کا ایک سبب یہ بھی بتایا گیا ھے کہ رسول خدا(ص) مکہ میں اس وقت جبکہ آپ کا رخ مبارک بیت المقدس کی جانب ھوتا ھرگز کعبہ کی جانب پشت نھیں فرماتے تھے، لیکن ھجرت کے بعد مدینے میں جس وقت آپ نماز ادا کرتے تو اس وقت مجبوراً آپ کی پشت کعبہ کی جانب ھوتی، رسول خدا کے قلب مبارک میں بیت ابراھیمی کے لئے جو احترام تھا اور اس کی جانب پشت کرنے سے آپ کو تکلیف ھوتی تھی اسے ملحوظ رکھتے ھوئے خداوند تعالیٰ نے تحویل قبلہ کے ذریعہ آپ کی رضامندی کا اھتمام کیا۔ (بحار ج۱۹، ص۲۰۰)

سمت قبلہ تحویل کئے جانے کے بعد یھودیوں نے دوبارہ اعتراضات کرنا شروع کردیئے کہ آخر وہ کیا عوامل تھے جن کے باعث مسلمان قبلۂ اول سے رو گرداں ھوگئے؟ اس کے ساتھ ھی انھوں نے رسول خدا(ص) کے سامنے یہ شرط رکھی کہ آپ قبلۂ یھود کی طرف رخ فرمالیں تو ھم آپ کی پیروی و اطاعت کرنے لگیں گے۔

بعض سادہ لوح مسلمان یھودیوں کی افتراء پردازیوں کا شکار ھوگئے، چنانچہ یہ دریافت کرنے لگے کہ وہ نماز جو انھوں نے بیت المقدس کی جانب رخ کرکے ادا کی ھیں ان کا کیا ھوگا۔

قرآن مجید نے ان کے اس سوال کا جواب دیتے ھوئے فرمایا ھے”ما کان لیضیع ایمانکم“

”اللہ تعالیٰ تمھارے ایمان (یعنی بیت المقدس کی جانب ادا کی جانے والی نماز)کو ھرگز ضائع نہ کرے گا۔“

جنگ بدر

سنہ ۲/ ھجری میں جو واقعات رونما ھوئے ان میں سے ایک جنگ بدر کا تقدیر ساز معرکہ تھا۔ اس جنگ کا تعلق ارادۂ ایزدی سے تھا۔

قرآن مجید کی آیات سے جو بات سمجہ میں آتی ھے وہ یہ ھے کہ پیغمبر اکرم (ص) کا مدینہ سے قریش کے تجارتی قافلہ کے تعاقب اور نتیجہ میں جنگ کے لئے نکلنا وحی او ر آسمانی حکم کے مطابق تھا جیسا کہ ارشاد ھے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next