حضرت علی (ع)کا عوام کے ساتھ طرز عمل



حضرت امیر المومنین علی  علیہ السلام Ú©ÛŒ وصیت 

آپ(ع) جن افراد کو زکوة اور صدقات وصول کرنے پر مقرر فرماتے تو ان کے لئے ایک ھدایت نامہ تحرےر فرماتے،یہاں پر ھم اس کے چند نمونے اس لئے بیان کر رھے ھیں تاکہ معلوم ھوجائے کہ آپ(ع) ھمیشہ حق کی حمایت کرتے تھے اور ھر چھوٹے بڑے اور پوشےدہ وظاھر امور میں عدل و انصاف کے نمونے قائم فرماتے تھے ۔چنا نچہ آپ ان عمال کو اس طرح وصیت فرماتے ۔

اللہ وحدہ لاشریک کا خوف دل میں لئے ھوئے یہاں سے جاؤ اور دےکھو ،کسی مسلمان کو خوف زدہ نہ کرنا اور اس کے ( املاک پر ) اس طرح سے نہ گزرنا کہ اسے ناگوار گزرے اور جتنا اس کے مال میں اللہ کا حق نکلتا ھو اس سے زائد نہ لینا جب کسی قبےلے کی طرف جانا تو لوگوںکے گھروں میں گھسنے کی بجائے پھلے ان کے کنوؤں پر جا کر اترنا ۔

پھر وقار اور سکون کے ساتھ ان کی طرف بڑھنا اور جب انکے درمیان پھنچنا،تو ان پر سلام کرنا ،اور آداب تسلیم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا اس کے بعد ان سے کھنا۔

اے اللہ کے بندو!مجھے اللہ کے ولی اور خلیفہ نے تمہارے پاس بھیجا ھے کیا۔ تمہارے اموال میں اللہ کا کوئی حق واجب الادا ھے ؟ اگر ھے تو اسے اللہ کے ولی تک پھنچاؤاگر کوئی انکار کرے تو اس سے دوبارہ نہ پوچھنا۔اگر کوئی اقرار کرے تو اسے ڈرانے دھمکانے یا اس پر سختی یا تشدد کیے بغیر اس کے ساتھ ھو لینا اور جو سونا یا چاندی وہ دے اسے لے لینا اگر اس کے پاس گائے ،بکری یا اونٹ ھوں تو ان کے غول میںاس کی اجازت کے بغیر داخل نہ ھونا کیونکہ ان میں زیادہ حصہ تو اسی کا ھے اور اگر وہ اجازت دےدے تو ھرگز نہ سوچنا کہ تمھیں اس پر مکمل اختیار ھے ۔

دیکھو!نہ کسی جانور کو بھڑکانا ،نہ ڈرانااور نہ اس کے بارے میں اپنے غلط رویہ سے مالک کو رنجیدہ کرنا ،جتنا مال ھو اس کے دو حصے کردینا۔

اور مالک کو یہ اختیار دینا کہ وہ جو حصہ چاھے پسند کرلے ۔اور جب وہ کوئی سا حصہ منتخب کرے تو اس کے انتخاب سے تعرض نہ کرنا اور اس مال میںسے جو اللہ کا حق ھے وہ پورا کرکے اسے اپنے قبضہ میں کرلینا اور اس پہ بھی اگر وہ پھلے انتخاب کو مسترد کرکے دوبارہ انتخاب کرنا چاھے تو اسے اس کا موقع دینا اور دونوں حصوں کو ملا کر پھر نئے سرے سے وھی کرنا جس طرح پھلے کیا تھا یہاں تک کہ اس کے مال سے اللہ کا حق لے لو[8]

نصر بن مزاحم کھتے ھیں کہ حضرت علی (علیہ السلام)واقعہ جمل کے بعد کوفہ تشریف لائے اھل بصرہ کے اشراف بھی آپ کے ھمراہ تھے اھل کوفہ نے آپ کابڑا استقبال کیا۔ آپ نے مسجد اعظم میں دو رکعت نماز ادا کی اور لوگوں کو خطبہ دیتے ھوئے ارشاد فرمایا:

تمہارے لئے اللہ کا تقوی اختیار کرنا ضروری ھے اور اھلبیت نبی(ص) سے، جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ھے ان کی اطاعت کرنا تم پر لازم ھے ھمارے مخالفےن کی اطاعت کے بجائے اھلبیت(ع) کی اطاعت واجب ھے کیونکہ انھیں ھمارے فضل کی وجہ سے فضیلت ملی ھے۔

لیکن انھوں نے ھمارے امر میں ھمارے ساتھ جھگڑا کیا ھے اور ھماراحق غصب کر لیا ھے اور ھم سے کنارہ کشی اختیار کر لی ھے انھوں نے وھی چکھا اور پایا ھے جو انھوں نے چاھاوہ عنقریب تاریک گڑھے میں جاپڑیں گے البتہ کچھ لوگ میری مدد کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے لیکن میں نے ان کو ڈانٹ کر بھگا دیا اور جو کچھ وہ ناپسند کرتے تھے وہ سب ان کو سنا دیا یہاں تک کہ انھوں نے اس تفرقہ کی وجہ سے حزب خدا کو پہچاننے کی کوشش شروع کر دی ۔

اس وقت مالک بن حبیب ےربو عی کھڑے ھوئے اور کھنے لگے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next