حضرت علی (ع)کا عوام کے ساتھ طرز عمل



خدا Ú©ÛŒ قسم میں Ù†Û’ حضرت علی (ع) سے ناپسندیدگی اور غلط بات کونہ دےکھا  اور نہ سنا Ú¾Û’Û” اس Ú©Û’ بعد آپ Ú©Ùˆ مخاطب کر Ú©Û’ Ú©Ú¾Ù†Û’ لگا خدا Ú©ÛŒ قسم اگر آپ ھمیں Ø­Ú©Ù… دیں تو Ú¾Ù… انھیں قتل کردیں۔ تب حضرت علی (علیہ السلام)Ù†Û’ فرمایا: سبحان اللہ اے مالک !تو Ù†Û’ نامناسب جزاکا فےصلہ کیا Ú¾Û’ اور حد Ú©Û’ متعلق مخالفت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ اور اپنے آپ کوجھگڑے میں ڈال دیا ھے۔وہ Ú©Ú¾Ù†Û’ لگا اے امیرالمومنین !اس معاملے میں تو بعض لوگ دھوکے سے اس حد تک Ù¾Ú¾Ù†Ú† Ú†Ú©Û’ ھیں۔لہٰذا آپ Ú©Ùˆ چاھیے کہ انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔حضرت Ù†Û’ فرمایا: اے مالک اللہ کا Ø­Ú©Ù… اس طرح نھیں Ú¾Û’Û” اے مالک اللہ تعالی فرماتا Ú¾Û’:( النفس بالنفس) جان Ú©Û’ بدلے میں جان، اور یہاں دھوکے Ú©Û’ ذکرکابھی کوئی حرج نھیں Ú¾Û’ کیونکہ اللہ فرماتا Ú¾Û’ جو مظلومیت Ú©ÛŒ حالت میں قتل ھوجائے تو اس Ú©Û’ ولی Ú©Ùˆ Ú¾Ù… Ù†Û’ سلطنت دی Ú¾Û’Û”

البتہ قتل میں حد سے نہ بڑھو ۔اور قتل میں اسراف سے مراد یہ ھے کہ جس نے تمھیں قتل کیا ھے اس کے علاوہ کسی اور کو قتل کرو ،اس سے اللہ نے منع کیا ھے اور یھی دھوکا بھی ھے ۔اس کے بعد ابوبردہ بن عوف ازدی کھڑا ھوا ھے جس نے آپ کی بیعت بھی توڑی تھی اس نے کہا:اے امیرالمومنین حضرت عائشہ ،طلحہ اور زبیر کے اردگرد جو لوگ قتل ھوئے ھیں وہ کیوں قتل ھوئے یا یوں کھاجائے کہ وہ کس لئے قتل کیے گئے ھیں؟۔

تب حضرت علی (ع)نے ارشاد فرمایا: وہ لو گ اس لئے قتل کئے گئے ھیں کیونکہ انھوں نے میرے شیعوںاورمیرے عمال کو قتل کیا تھا اور وہ مسلمانوں سے تعصب میں ربیعہ عبیدی کے بھائیوں کی وجہ سے قتل کئے گئے ھیں وہ کھتے ھیں ھم بےعت نھیں توڑےں گے جس طرح تم نے بےعت توڑی ھے ھمیں اس دھوکے میں نہ رکھا جائے جس میں تم ھو پس ان پر حملہ کرواور انھیں قتل کر دو تم ان سے معلوم کرو کہ کیوں انھوں نے مجھ پر حملہ کیا ھے؟ اور کیوں میرے بھائیوں کو قتل کیا ھے؟کیا میں نے ان کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا تھا؟ اللہ کی کتاب میرے اوران کے درمیان حَکم ھے، انھوں نے میرا انکار کیا اور مجھ سے جنگ کی حالانکہ ان کی گردنوں پر میری بیعت تھی یعنی میری بیعت کرنے کے باوجود انھوںنے میرے ساتھ جنگ کی اور تقریبا میرے ایک ہزار شیعوں کا خون بہایا اس لئے انھیں بھی قتل کیا گیا ،کیا تمھیں اس میں کوئی شک وشبہ ھے ؟وہ کھنے لگا پھلے میں یقینا شک میں مبتلا تھا لیکن اب مجھ پر حقیقت حال واضح ھوگئی ھے اور مجھے قوم کی غلطی معلوم ھوگئی ھے اور آپ حق بجانب اور کاروان ھدایت کے رھنما ھیں۔[9]

الواحدی دمشقی کھتے ھیں کہ حوشب خیری (یا حمیری)نے جنگ صفین میں حضرت علی (علیہ السلام)کو پکارا اور کھنے لگا اے ابن ابی طالب آپ ھم سے دور ھوجائیں ھم اپنے اور تمہارے خون کے متعلق اللہ سے سوال کریں گے ۔

اور ھم آپ سے اور آپ کے عراق سے دور ھو جانا چاھتے ھیں۔ لہٰذا آپ بھی ھمیں اور ھمارے شام کو الگ کردیں تاکہ مسلمانوں کا خون محفوظ رہ سکے اس وقت حضرت علی (ع)نے فرمایا: اے ظلم کے بانی ایسا کرنا بھت بعید ھے۔ خدا کی قسم اگر میں یہ جانتا فرےب دینے کی اللہ کے دین میں وسعت ھے تو میں ایسا کرتا اور یہ کام مجھ پربھت آسان ھوتا لیکن اللہ تعالی اھل قرآن کے لئے دھوکے اور خاموشی کو پسند نھیں کرتا بلکہ یہ تو خدا کی معصیت ھے ۔[10]

سبط ابن جوزی ابی النوار کی سند سے روایت بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں کہ

 Ù…یں Ù†Û’ حضرت علی (علیہ السلام)Ú©Ùˆ ایک درزی Ú©ÛŒ دکان پر Ú©Ú¾Ú‘Û’ ھوئے دیکھا آپ اس سے کہہ رھے تھے کہ دھاگے Ú©Ùˆ سخت رکھو اور Ú©Ù¾Ú‘Û’ Ú©ÛŒ سلائی میں بارےک بینی اور دقت سے کام لو کیونکہ میں Ù†Û’ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم سے یہ فرماتے ھوئے سنا قیامت Ú©Û’ دن خائن درزی Ú©Ùˆ لایا جائے گا اوراس Ú©Û’ سامنے اس Ú©ÛŒ سِلی ھوئی وہ قمیص اور چادر رکھی جائے Ú¯ÛŒ جس میں اس Ù†Û’ خیانت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ اور اس طرح لوگوں Ú©Û’ سامنے اس Ú©ÛŒ رسوائی Ú¾Ùˆ Ú¯ÛŒ Û”

پھر فرمایا : اے درزی!  قمےص Ú©ÛŒ سلائی Ú©Û’ بعد جو اضافی کپڑا بچ جائے اس سے بچو۔ کیونکہ Ú©Ù¾Ú‘Û’ کا مالک زیادہ حق دار Ú¾Û’ اگر کوئی Ú©Ù…ÛŒ بےشی رہ جائے تو  اس دنیامیں Ú¾ÛŒ اس سے اجازت  طلب کر لو Û”[11]

زمخشری ربیع ابرار میں ابی اعور کی سند بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام سے دنیامیں سخت زندگی گزارنے کے متعلق پوچھاگیا تو حضرت نے روتے ھوئے فرمایا کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ھمشیہ راتوں کو جاگتے تھے اور کبھی بھی انھوں نے پےٹ بھر کر کھانا تناول نھیں فرمایا۔

ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دروازے پر نقش ونگار والا پردہ دےکھا تو آپ پلٹ آئے اور داخل نہ ھوئے اور آپ نے فرمایا ھمیں اس کی کیا ضرورت ھے اسے میری آنکھوں سے دور لے جاؤ یہ تو دنیا کے لئے ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 next