انس با قرآن



  مولف: اصغر ھادوی كاشانی

مترجم: سید محمد جعفر زیدی

اس پہلی رات سے جب قرآن رسول اكرم(ص) پر نازل ھوا معنویت كی پیاسی سرزمین "حجاز" رحمت الھی كا مركز قرارپائی اور اس چشمہ فیض الھی سے ارتباط كے راستے ھموار ھوگئے اور قرآن زمین وآسمان كوملانے كی كڑی ھوگیا۔كلام الھی سے انس اور چوبیس گھنٹے اس كی آیتوں كی تلاوت كی سرگوشی اس طرح سے تھی كہ رسول اسلام(ص) گھروں كے افراد كوان كی آواز قرآن كے ذریعہ پہچانتے تھے۔ 1كچھ لوگ قرأت اور كچھ حفظ اور كچھ افراد آیات الھی میں غوروخوض كیاكرتے تھے اور اسلامی معاشرہ بھی تعلیمات قرآن پرعمل پیراتھا۔

اسكے باجود كیوں قرآن یہ كھتاھے كہ رسول اسلام(ص) قیامت كے دن قرآن كی مجھوریت كا شكوہ كریں گے؟ كیا آنحضرت(ص) اپنے زمانے كی امت سے نالاں ھیں یااس دور كے بعد والے مسلمانوں سے؟ اگر اس زمانہ میں صحابہ اور رسول اسلام(ص) كے درمیان ارتباط كو مدنظر ركھاجائے توظاھراً ایسا لگتاھے كہ یہ شكایت رسول كے بعد والی امت سے مربوط ھے۔

آیٔہ شریفہ (رب ان قومی اتخذوا ھذ القرآن مھجورا) 2 كے ذیل میں ایسی كوئی معتبر روایت نھیں پائی جاتی جس كے ذریعہ صحیح فیصلہ ھو سكے لیكن مزكورہ باتوں كو مد نظر ركھتے ھوئے بھت محتمل ھے كہ یہ شكایت پیغمبر اسلام(ص) كے بعدآنے والی امتوں سے مربوط ھے۔

مقاله حاضر كا ھدف یہ ھے كہ قرآن كے سلسلہ میں موجود روایتوں كي رتبہ بندی كرسكے تا كہ قرآن مھجوریت سے نكل آئے البتہ یہ رتبہ بندی پیغمبر(ص) اور معصومین(ع) كےتمام نورانی اقوال میں پائی جاتی ھے۔ھم نے فقط اس رتبہ بندی كوآشكار كیاھے۔قرآن سے مربوط روایتوں میں سیرطولی كاماحصل یہ ھوگا كہ ھركوئی اپنے ظرف كی وسعت اور اپنی قدرت كے برابر قرآن سے بھرہ مند ھوسكے اور ایك مرحلہ كی ناتوانی اسے قبل كے مراحل سے محروم نہ كردے ۔ جیسے نماز پڑھنے كے سلسلے میں موجود روایتوں سے فقھاء نے ایك قاعدہ اخذ كیا هي كہ جس قاعدہ كے تحت كوئی شخص ترك نماز كاعذر نھیں ركھتا اور كھاگیا "الصلوة لایترك بحال" نماز كسی حال میں بھی ترك نھیں ھونی چاھئیے۔

اسی طرح سے قرآن كے سلسلہ میں بھی اگر ھم چاھتے ھیں اسے مہجوریت سے خارج كریں تو كوئی شخص كسی بھی حال میں قرآن سے اپنا رابطہ قطع نہ كرے۔ ھاں نماز كے لئے ایك حكم الزامی ھے لیكن قرآن كے سلسلہ میں كوئی الزام وتكلیف نھیں پائی جاتی اگر قرآن سے متعلق روایتوں كو اس طرح رتبہ بندی نہ كریں توان كے درمیان سخت تعارض واقع ھوگا۔ مثال كے طور پربعض ایسی روایتیں ھیں جو صرف تلاوت كاحكم دیتی ھیں اور اس بات كی تاكید كرتی ھیں یھاں تك كہ پیغمبراسلام(ص) سے مروی ھے كہ: "اگركوئی قرآن كو غلط پڑھے اور اصلاح كرنے پرقادرنہ ھو، تو ایك فرشتہ مامور ھوگاجواسے صحیح طریقہ سے اوپرلے جائے" 3 یا بعض دوسری روایتوں میں قرآن سننے كے لئے ثواب ذكر كیا گیا ھے یھاں تك كہ غیرارادی طور پر بھی سننا مستحق اجر و جزا جانا گیا ھے۔

اس كے مقابل میں پیغمبر(ص) اور آئمہ(ع)سے بھت سی ایسی روایتیں پائی جاتی ھیں جو اشارہ كرتی ھیں كہ تدبر اور تفكر كے بغیر قرائت میں كوئی خیر و بركت نھیں ھے یا وہ روایتیں جو صرف قرآن پرعمل پیرا ھونے كے ارزش كی قائل ھیں۔ یہ تعارض برطرف ھونا چاہئیے اور تعارض برطرف كرنے كاصرف ایك طریقہ یہ ھے كہ كھا جائے یہ تمام روایتیں اپنے اپنے طبقہ كے مخاطبین سے مربوط ھیں، بعض فقط قرآن كو گھر میں ركھ سكتے ھیں حتیٰ كہ قرائت سے بھی عاجز ھیں بعض فقط اس كی طرف دیكھ سكتے ھیں، بعض اس میں غور و فكر كرتے ھیں اور بعض اس پرعمل كرتے ھیں اور جو ان تمام مراتب كو جمع كرلے " طوبیٰ لہ وحسن مآب " ۔

اس تقسیم بندی كی تائید امام صادق علیہ السلام كی ایك روایت بھی كرتی ھے آپ(ع) فرماتے ھیں: " كتاب اللہ علیٰ اربعۃ: العبارة للعوام، الاشارة للخواص، اللطائف للاولیاء والحقائق للانبیاء " ۔ 4

بعض لوگوں كا قرآن سے بھرہ مند ھونا عبارات وظواھر تك ھے بعض كے لئے وھی ظواھر اشارہ ھیں معنیٰ خاص كی طرف۔ اولیاء الھی قرآنی آیتوں سے لطائف تك پھنچتے ھیں اور انبیاء آیات الھی كے بطون اور اپنے اپنے مراتب درك كے پیش نظرحقائق كے اس اعلی مراتب پر پھنچ جاتے ھیں جھاں دوسرے پھنچنے سے عاجز ھیں ۔



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next