انس با قرآن



 

1۔ "مس" سے مراد علم قرآن ھے۔

2۔ مصداق "مطھرون" مقربون ھیں(اس آیت كے ذیل میں روایت نبوی كے پیش نظر، كہ آنحضرت (ص) نے اسی طرح تفسیر فرمائی ھے۔)۔

3۔ مقربون فرشتوں سے اعم ھے اور اھل بیت كو بھی شامل ھوگا۔

4۔ طھارت سے مراد صرف طھارت ظاھری وباطنی نھیں ھے بلكہ مراد، دلوں كو تمام وابستگی غیر خدا سے پاك كرنا ھے۔

نتیجہ: قرآن كا علم، صرف ملائكہ كے شامل حال نھیں ھے اور اھل بیت بھی اس میں شامل ھیں ۔

امام محمد باقر علیہ السلام آیت "قل كفی باللہ شھیداً بینی و بینكم و من عندہ علم الكتاب" كے ذیل میں فرماتے ھیں: "آیت سے مراد ھم اھل بیت(ع) ھیں اور ھم میں سب سے پھلے و سب سے برتر علی علیہ السلام ھیں"۔

یھاں تك یہ بات روشن ھوگئی كہ علم قرآن "راسخین فی العلم" سے مخصوص ھے جو پیغمبر(ص) ائمہ معصومین(ع) اور بعض علماء كو شامل ھے البتہ ان سب میں بالا اور كامل ترین راسخ شخص پیغمبراكرم(ص) ھیں۔ امام صادق(ع) فرماتے ھیں: "فرسول اللہ افضل الراسخین فی العلم قد علّمہ جمیع ماانزل علیہ من التنزیل و التاویل و ما كان اللہ لینزل علیہ شیئا لم یُعلّمہ تاویلہ و اوصیاء من بعدہ یعلمونہ كلّہ"۔ رسول خدا(ص) سب سے برتر راسخ فی العلم ھیں كہ خداوند عالم نے سارے قرآن كی تفسیر و تاویل سے آپ كو آگاہ كیا ھے اور كوئی آیت نازل نھیں ھوئی مگریہ كہ آنحضرت(ص) اس كی تفسیر و تاویل كو نہ جانتے ھوں اور آپ كے جانشین بھی تمام قرآن كا علم ركھتے ھیں۔

2۔ مذكورہ رتبہ بندی میں قرآن سے انسیت كا بالا ترین رتبہ قرآن پرعمل ھے لیكن روایات میں علم و عمل كا رابطہ ھے اور عمل كے آثار میں سے بھی ھے اور علم كے لئے اسے مقدمہ بھی بیان كیا گیا ھے۔ پیغمبر اكرم(ص) فرماتے ھیں: "ان العالم من یعمل وان كان قلیل العمل" عالم وہ ھے جو اپنے علم كے مطابق عمل كرے اگرچہ عمل كی مقدار كم ھی كیوں نہ ھو ۔

دوسری روایت میں فرماتے ھیں: "لاتكون عالما حتی تكون بالعلم عاملاً" (اس وقت تك) عالم نھیں ھوگے جب تك اپنے علم پرعمل نہ كرو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next