تقیہ کے وسیلہ میں ایک بحث



خدا نے جس کو جتنا دیا ہے بس اسی کے مطابق تکلیف دیا کرتا ہے ۔

<مَاجَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ>(۱۱)

ترجمہ:۔ اور امور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی۔

مسلمانوں کا تقیہ

مذکورہ تینوں آیتوں کا عموم یا اطلاق جو کہ جواز تقیہ پر دلالت کرتاہے، کافر اور مسلمان دونوں Ú©Û’ مقابلہ میں تقیہ Ú©Ùˆ مساوی طور پر ثابت کرتا ہے، لیکن پہلی تینو Úº آیتیں  کفار Ú©Û’ مقابلہ میں  مسلمانوں Ú©Û’ تقیہ Ú©Û’ بارے میں تھیں ØŒ البتہ یہ بات اپنی جگہ Ø·Û’ شدہ ہے کہ مورد اور مقام Ø­Ú©Ù… کیلئے مخصِّص نہیں ہوا کرتا، چنانچہ اگر اس کا ملاک عمومیت رکھتا ہے تو Ø­Ú©Ù… بھی عام ہو گا،اور یہاں چونکہ تقیہ کا ملاک عام ہے لہٰذا اس کا Ø­Ú©Ù… بھی عام ہو گا ،جس Ú©Û’ نتیجہ میں تقیہ کا Ø­Ú©Ù… ان مسلمانوں Ú©Ùˆ بھی شامل ہو جائے گا جو دیگر مسلمانوں Ú©Û’ مقابلہ میں تقیہ کرنا چاہتے ہیں ØŒ چنانچہ فخر الدین رازی پہلی آیت( آل عمران۔ Û²Û¸) Ú©ÛŒ تفسیر میں کہتے ہیں :

ظاہراً یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ مسلمان صرف کفار Ú©Û’ مقابلہ میں تقیہ کرسکتے ہیں،جبکہ ان Ú©ÛŒ طرف سے ڈر اورخوف پایا جاتا ہو ØŒ لیکن امام شافعی کا فتوی یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان Ú©Ùˆ دوسرے مسلمانوں Ú©Û’ سامنے ایسی صورت حال پیش آجائے جو کفار Ú©Û’ مقابلہ میں آنے پر تقیہ کرنا پڑتا ہے تو وہ ان مسلمانوں Ú©Û’ سامنے بھی تقیہ کرسکتا ہے ØŒ گویاامام شافعی Ú©ÛŒ نظر میں تقیہ مسلمانوں Ú©ÛŒ جان Ú©ÛŒ حفاظت Ú©Û’ خاطر ہے ØŒ البتہ مال Ú©ÛŒ حفاظت میں بھی تقیہ ترجیح رکھتا ہے ØŒ کیونکہ رسول اسلام Ù†Û’ فرمایا ہے : 

”حرمۃ مال مسلم کحرمۃ دمہ“

مال مسلم کا احترام اس کے خون کے برابر ہے ۔

نیز فرمایا : ”من قتل دون مالہ فہو شہید“ (۱۲)

جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کردیا جائے وہ شہید ہے ۔

 Ø¹Ù„امہ مراغی دوسری آیت( نحل آیت Û±Û°Û¶ )Ú©Û’ ذیل میں کہتے ہیں :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next