تقیہ کے وسیلہ میں ایک بحث



”کفار ، ظالم ، اور فاسقوں سے مدارا ت اختیار کرنااور ان سے نرمی کے ساتھ پیش آنا، اس آیت کے حکم میں شامل ہے ، یعنی ا نسان ان کے ساتھ نر می سے پیش آئے، اور ان کو کچھ بخش دے، خوش اخلاقی اور تبسم کی ساتھ ان سے برتاوٴ کرے، تاکہ ان سے اپنی جان اور آبرو محفوظ رہے “۔(۱۳)

یعقوبی اور دیگر موٴرخین نے نقل کیا ہے کہ جب بسر بن ابی ارطاة نے مدینہ پر حملہ کیا تو جابر بن عبد الله کو بلایا اس وقت جابر نے ام سلمہ سے کہا : اس کی بیعت کرنا ضلالت ہے ، اور بیعت نہ کروں تو ڈر اس بات کا ہے کہ وہ مجھے قتل کردے گا ، ام سلمہ نے نے کہا : بیعت کرلو کیونکہ اصحاب کہف تقیہ کی صورت میں اپنی قوم کے مخصوص تیو ہار میں شرکت کرتے تھے، اور ان کے جیسا لباس پہنتے تھے ۔(۱۴)

 Ø·Ø¨Ø±ÛŒ اپنی تاریخ میں مامون عباسی Ú©ÛŒ طرف سے قرآن Ú©Û’ مخلوق ہونے Ú©Û’ بارے میں محنت کا واقعہ نقل کرتے ہیں : بیان کرتے ہیں کہ بہت سے محدثین اور قاضی حضرات جو مامون Ú©Û’ ڈرانے اور دھمکانے اور سختی Ú©Û’ تحت زندگی گزار رہے تھے ØŒ وہ قرآن کا ڈر Ú©ÛŒ وجہ سے مخلوق ہونے کا عقیدہ ظاہر کرتے ØŒ جس Ú©ÛŒ وجہ سے بہت لو Ú¯ÙˆÚº Ú©ÛŒ طرف سے ان Ú©ÛŒ اس بات پر مذمت Ú©ÛŒ گئی، تو انھوں Ù†Û’ اپنے اس کام Ú©ÛŒ توجیہہ عمار یاسر Ú©Û’ واقعہ سے Ú©ÛŒ Û” (Û±Ûµ)

یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ تقیہ ایک کلی عقلی قاعدہ ہے، کافروں سے مخصوص نہےں ہے، یہ دونوں جگہ کیا جا سکتا ہے۔

تقیہ؛ روایات اہل بیت  علیہم السلام Ú©ÛŒ روشنی میں 

 ÛŒÛØ§Úº تک ثابت ہوگیا کہ تقیہ ایک عقلی قاعدہ ہے ØŒ اور یہ انسان Ú©ÛŒ زندگی Ú©ÛŒ ضروریات میں سے ایک ضرورت ہے ØŒ اور  اسے آسمانی اور الٰہی تمام مذاہب Ù†Û’ قبول کیا ہے،اور مسلمانوں Ù†Û’( قطع نظر اپنے مذہبی عقائد Ú©Û’) اس پر عمل کیا ہے ØŒ  لیکن اس Ú©Û’ باوجود اہل بیت Ú©ÛŒ روایتوں میں اس پر خاص توجہ دی گئی ہے اور اس Ú©Û’ لئے بہت اہتمام اور تاکید فرمائی ہے ØŒ یہاں تک کہ روایات میں اس طرح وارد ہوا ہے :

” لا ایمان لمن لا تقیۃ لہ“ و” لادین لمن لا تقیہ لہ“ (۱۶)

جو تقیہ نہیں کرتا اسکے پاس ایمان نہیں ، نیز فرمایا :جو تقیہ نہیں رکھتا اس کے پاس گویا دین نہیں ۔

نیزامام محمد باقر  علیہ السلام Ù†Û’ فرمایا :

” التقیہ من دینی ودین آبائی“

تقیہ ہمارا اور ہمارے آباء و اجداد کا دین ہے



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 next