قانون گذاری کے شرائط اور اسلام میں اس کی اہمیت



اسلامی نظریہ کے مطابق مذکورہ شرطوں کے علاوہ ،قانون گذار کی انسانی مادّی و معنوی مصلحتوں سے واقفیت ضروری ہے اور کسی خاص فرد یا کسی خاص گروہ کے فائدہ کی خاطر معاشرہ کے فائدوںکو قربان نہ کرے۔

اسلام اس نکتہ کا بہی اضافہ کرتا ہے کہ قانون گذاری کا اصل حق اسی کو ہے جو انسانوں کو امر ونہی کرسکتا ہو،اگر کوئی معاشرہ کی مصلحتوں کا علم رکھتا ہو او روہ معاشرہ کی مصلحتوں کو اپنی ذاتی مصلحتوں پر مقدم کرے پھربہی قانون گذاری کا حق اصالةً اس کو نہیں ہے؛ کیونکہ ھر قانون خواہ ناخواہ امر ونہی رکھتا ہے ، جیسا کہ ہم نے بحث ”حق وتکلیف “کے بارے میں گذشتہ جلسوں کے دوران عرض کیا کہ ھرقانون صریحاً یا اشارةً امر ونہی رکھتا ہے ، مثلاً تایک دفعہ کھا جاتا ہےکہ دوسروں کے مال کا احترام کرو اور اس میں تجاوز نہ کرو،یہ امر صریح او رواضح ہے لیکن کبہی قانون میں ظاھری طور پر امر ونہیں ہوتا ،مثلاً کھا جائے کہ آپ کے لئے اس طرح کا حق ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسرے اس حق کی رعایت کریں ، ان تمام چیزوں کا قانون ضامن ہوتا ہے،یعنی یہ ساری باتیں قانون کے اندر ہونا چاھئے گویا اس طرح کا امر پر بہی قانون مشتمل ہوتا ہے۔

لھٰذا قانون کو یہ حق ہے کہ دوسروں کو امر ونہی کرے اور یہ اصل حق خدا سے مخصوص ہے، چاہے شرط اول کے لحاظ سے دیکھا جائے جس میں یہ کھا گیا تھا کہ قانون گذار کو انسانوں کے مصالح سے آگاہ ہونا چاھئےے، یا شرط دوم کے لحاظ سے دیکھا جائے جس میں یہ کھا گیا تھا کہ قانون گذار وہ ہے جو اجتماعی مصالح پر فردی مصالح کو مقدم نہ کرے ، ان دونوں شرطوں کے اعتبار سے خدا متحقق ہے کیونکہ وہ انسانوں کے مصالح کا سب سے زیادہ عالم ہے ، چنانچ مذکورہ شرطیں سب سے زیادہ کامل خدا میں موجود ہیں؛ کیونکہ انسان کے اعمال کا کوئی بہی فائدہ خدا کو نہیں پہونچتا، مثلاً اگر تمام انسان مومن ومتقی بن جائیں تو خدا کاکو ئی فائدہ نہیں ہے اور اسی طرح اگر تمام لوگ کافر ہوجائیں تو بہی خدا کا کوئی نقصان نہیں ہے،اگر تمام لوگ قوانین کی رعایت کریں تو بہی خدا کا کوئی فائدہ نہیں ہے اسی طرح اگر تمام لوگ قوانین کی مخالفت کریں تو بہی خدا کا کوئی نقصان نہیں ہے۔

لیکن تیسری شرط،(امر ونہی)خدا کے علاوہ کوئی بہی انسان اصالةً یہ حق نہیں رکھتاکہ کسی کو امر ونہی کرے، انسان دوسروے کو اس وقت امرونہی کرسکتا ہے جس اس کا دوسرے پر کوئی حق ہو اور لوگوں کا ایک دوسرے پر اس طرح کا کوئی حق نہیں ہے، خدا کی نظر تمام کے تمام انسان برابر ہیں ،خدا ان سبہی کا مالک ہے اور انسان اور اس کا تمام وجود خدا سے متعلق ہے ، لھٰذا صرف خدا کو انسانوں پر امر ونہی کا حق ہے۔

دوسرے الفاظ میں یہ عرض کیا جائے کہ انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی ربوبیت کو پھچانیں اور اس کی ربوبیت کے حق کو ادا کر ے اور خداوندعالم کی ربوبیت انسانوں کے لئے دو اعتبار سے ظاھر ہے:

1۔تکوینی، یعنی کائنات کے چلانے کا حق صرف ذات باری تعالیٰ سے مخصوص ہے وہی کائنات کا مدبّر ہے، لھٰذا انسان اس چیز کا عقیدہ رکہے کہ خداوندعالم نے اس کائنات میں کچھ تکوینی قوانین نافذ کئے ہیں جن کے تعاون سے یہ کائنات رواں دواں ہے، چاند سورج اسی کے حکم سے گردش میں ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ اسی کے اشارہ پر چلتا ہے،لھٰذا اس کائنات کا صاحب اختیار، ربّ تکوینی اور اس کائنات کا چلانے والاخدا وحدہ لاشریک ہے، اسی طرح یہ عقیدہ بہی رکہے کہ اس کائنات کا ربّ تشریعی بہی خدا وندعالم ہے، گذشتہ جلسہ میں اس سلسلہ میں گفتگو ہوچکی ہے کہ ربوبیت تشریعی بہی خداہی کا حق ہے اور ربوبیت تشریعی میں توحید اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان فقط خدا سے احکامات کو لے اور اس سے قانون کو اخذ کرے، اور قانون کو جاری کرنے والے افراد خدا کی اجازت سے معاشرہ میں جاری کرےں۔

 

3۔ قانون بنانے والے متعدد ہوسکتے ہیں (ایک اعتراض)

یھاں پر کچھ شبھات بیان کئے جاتے ہیں: (گذشتہ گفتگو میں ان اعتراضات وشبھات کے بارے میں ایک اشارہ ہوچکا، لیکن کبہی کبہی اخباروں یا تقریروں یا کانفرنس وغیرہ میں کچھ چیزیں بیان کی جاتی ہےں کہ جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یا تو ان لوگوں نے اس سلسلہ میں توجہ نہیں کی یا یہ کہ یہ بحث ان کو ھضم نہیں ہوئی،لھٰذا ضروری ہے کہ اس سلسلہ میں مزید وضاحت کردی جائے) ان شبھات میں سے ایک یہ ہے : کہ آپ کھتے ہیں کہ قانون کو خدا وضع کرے، جیسا کہ ربوبیت تشریعی اس بات کا تقاضا کرتی ہے،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں ایسے قوانین کی ضرورت ہے کہ جن کو خدا نے نہیں بنایا بلکہ خود لوگوں نے ان قوانین کو بنایا ہے،اور اگر ان کو نہ بنایا جاتا تو معاشرہ میں بھت بڑی مشکل ہوتی، مثلاً وہ قوانین جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں اسلامی پارلیمینٹ کے ذریعہ بنائے جاتے ہیں، ان قوانین کی ہمارے معاشرہ کو ضرورت ہے، لیکن ان کو خدا وپیغمبر نے نہیں بنایا ، جن کا سب سے واضح نمونہ ٹریفک قوانین ہیں، کہ اگر یہ قوانین نہ ہوتے تو پھر کتنے حادثہ ہوتے کتنے لوگوں کی جان خطرہ میں ہوتی اور کتنا مال برباد ہوتا۔

لھٰذا ایک طرف تو معاشرہ کو ایسے قوانین کی ضرورت ہے جبکہ خدا کی طرف سے ایسے قوانین نہیں بنائے گئے ہیں ، نہ ہی قرآن مجید میں اس طرح کے قوانین موجود ہیں اور نہ ہی حدیث رسول اکرم اور ائمہ کے کلمات میںیہ قوانین ملتے ہیں، پس آپ کس طرح یہ کھتے ہیں کہ قوانین کو خدا کی طرف سے ہونا چاھئے اور خدا قوانین کو بنائے؟ اور اگر انسانی قانون گذار کے ذریعہ یہ قوانین بنائے جائیں اور ان کو معتبر سمجھا جائے تو اس بات کا نتیجہ یہ ہے کہ قانون بنانے والے دو مرجع ہوئے ایک خدا اور دوسرے انسان، اور یہ آپ کے بیان کے مطابق تشریع میں شرک ہے، یہ ایک مہم اعتراض ہے کہ جو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے البتہ اس کا جواب بہی دیا جاچکا ہے لیکن جواب کو وہ لوگ صحیح ھضم نہ کرسکے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next