قانون گذاری کے شرائط اور اسلام میں اس کی اہمیت



لفظ ”حاکمیت“ کا استعمال حقوق الناس میں دو جگہ استعمال کیا جاتاہے(البتہ چونکہ الفاظ ایک دوسرے کے مشابہ ہیں، چنانچہ جن کو اچہی طرح واقفیت نہیں ہوتی وہ ان الفاظ کو جابجا استعمال کرتے ہیں)

اول: پھلی وہ جگہ ہے جھاں اقوام عالم کے حقوق کا ذکر کیا جاتا ہے اور کھا جاتا ہے کہ ھر قوم وملت اپنی سرنوشت پر حاکم ہے، یہ ایک اصطلاح ہے کہ جو بین الاقوامی حقوق میں بیان ہوتی ہے، یہ اصطلاح مختلف ممالک کے آپسی روابط اور ایک دوسرے کے سامنے ان کا موقف اور پھر استعماری طاقتوں سے مقابلہ آرادئی کرنا جیسے مباحث اور موارد میں استعمال ہوتی ہے. 18ویں اور 1۹ویں صدی عیسوی میں خصوصاً مغربی ممالک میں استعمارگری کا دور دورہ شروع ہوا،چنانچہ جس کے پاس جتنی طاقت ہوتی تہی اسی مقدار میں دوسرے ملکوں پر قبضہ کرلیتا تھا، یا اپنی طرف سے کسی ملک پر حاکم معین کردیتا تھاکہ جو وھاں پر حکومت کرتا تھا، یعنی ایک ملت کی سرنوشت (مقدر) پر دوسروں کے ھاتہوں میں ہوتی تہی یا پھر دوسرا ملک ان ک قیم اور ذمہ دار ہوتا تھا، اصل ”قیمومیت“ ان موضوعات میں سے ہے جو بین الاقوامی حقوق میں بیان کیا جاتا ہے، پس جب لوگ عالمی ظلم سے واقف ہوگئے اور اپنے حقوق کے طالب ہوگئے تو ملت کی حاکمیت کا مسئلہ پیدا ہوا، اور آھستہ آھستہ مسئلہ حاکمیت ملت نے بین الاقوامی حقوق میں اپنی جگہ بنالی، اور کھا جانے لگا کہ ھر قوم اپنی سرنوشت پر حاکم ہے؛ یعنی دوسروں کو استعمار اور قیمومیت کا حق نہیں ہے، ”حاکمیت ملّی“ یعنی ھر قوم وملت مستقل ہے اور اپنی سرنوشت پر خود حاکم ہے اور کسی ملت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسری ملتوں کا اپنے کو حاکم سمجہے، کسی بہی حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی دوسرے ملک میں اپنی حاکمیت چلائے، پس یہ ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جو بین الاقوامی روابط میں بیان ہوتی ہے۔

حاکمیت کی دوسری اصطلاح خود معاشرہ سے متعلق ہے، اور یہ اصل اساسی وبنیادی حقوق سے مربوط ہے، یعنی ایک وہ معاشرہ کہ جس میں مختلف گروہ مختلف اقوام شامل ہےں، (قطع نظر اس چیز سے کہ اس معاشرہ کا دوسرے ملکوں سے کیسا رابطہ ہے) ان میں سے کسی قوم یا گروہ کو یہ حق نہیں ہے کہ خود کو دوسروںپر حق حاکمیت رکھتا ہو،برخلاف اس نظریہ کے کہ جو دنیا کے بعض ملکوں میں پایا جاتا ہے، کہ جن طبقاتی نظام قائم ہے اور ایک قسم قوم ذات پات کے لوگ حاکم ہوتے تہے جیسے ھندوستان میں ٹھاکر،پنڈات کے حاکم ہونے کا رواج تھا یا مسلمانوں میں سید اور پٹھان حاکم ہوتے تہے وغیرہ وغیرھ۔

خلاصہ یہ کہ اصل یہ بیان کرتی ہے کہ ھر شخص اپنی سرنوشت پر حاکم ہے ، دوسرا اس پر حاکمیت نہیں رکھتا، پس کسی بہی معاشرہ کا کوئی فرد یہ نہیں کھہ سکتا کہ میں فلاں گروہ یا فلاں قبیلہ کا حاکم ہوں،(یہ تہی ایک اصل)

ہم نے جو کچھ ذکر کیا ، اس بات پر توجہ کرنے کے لئے تھا کہ ان دونوں اصول کا ماحصل یہ تھا کہ انسانوں کے درمیان رابطہ کی فضاء کو ہموار کیا جائے چاہے پھلی اصل ہو یا دوسری اصل ، کیونکہ پھلی اصل جو عمومی بین الاقوامی حقوق سے متعلق ہے ،جس کا کام ملکوں اور حکومتوں کے درمیان رابطہ کو بیان کرنا تھا اور واضح طور پر اس بات کو کھتی ہے کہ ھر ملت اپنی سرنوشت پر حاکم ہے، اور کسی دوسرے ملک کو ان پر حاکمیت کا حق نہیں ہے، لھٰذا اس اصل کے اندر اس چیز کو دیکھا گیا ہے کہ ایک معاشرہ دوسرے معاشرہ کے افراد سے کیا روابط رکھنے کے لئے نظر رکھتا ہے، دوسری اصل میں خود اپنے ملک کے افراد کے حقوق کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے یعنی دوسری اصل ملکی افراد کے حقوق کے بارے میں بحث کرتی ہے، اس میں یہ بیان ہوتا ہے ھر انسان اپنی سرنوشت پر حاکم ہے، یعنی دوسرے کسی انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے پر حکومت کرے۔

بھر حال یہ تمام اصول انسان کے ایک دوسرے سے رابطہ سے متعلق ہیں نہ کہ انسان کے خدا سے رابطہ سے، جن لوگوں نے ان اصول کو بیان کیا ہے (چاہے کسی دین کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں) اس سے مراد کبہی بہی انسان کے خدا سے رابطہ کو مراد نہیں لیا ہے تاکہ یہ کھا جائے کہ خد ا بہی انسانوں پر حق حاکمیت نہیں رکھتا، وہ یہ بیان نہیں کرنا چاھتے تہے بلکہ وہ انسانی روابط یا حکومتی روابط کو بیان کرنا چاھتے تہے، کہ کیا کسی استعمار ی حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ کسی دوسری حکومت پر قبضہ کرے یا نہیں؟ یا ملکی پیمانے پر کسی ایک گروہ یا قبیلہ کو یہ حق ہے کہ وہ ایک دوسرے پر حکومت کریں یعنی کسی قبیلہ کی سرنوشت دوسرے قبیلہ سے متعلق ہے یا نہیں؟

انسان اپنی سرنوشت پر حاکم ہے اس کے معنی یہ ہیں،کہ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی آقائی کو کسی دوسرے پر مسلط کرے، نہ یہ کہ یہ حق خدا کو بہی نہیں ہے، اب اگر فرض کریں کہ وہ تمام لوگ کہ جنہوں نے ان قوانین کو بنایا اور ان اصولوں کو بیان کیا ، کیا وہ بے دین تہے اور خدا کو نہیں مانتے تہے، لیکن جب اسلامی جمہوری ایران کا قانون اساسی بن رھا تھا کہ انسان اپنی سرنوشت پر حاکم ہے تو کیا یھاں بہی خدا کو نادیدہ قرار دیا گیا؟ یعنی کیا خدا کو بہی حق نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو حکم دے؟

یا یہ کہ یہ اصل وہی ہے کہ جو اس وقت کی دنیا میں رواج یافتہ ہے ، کہ جس کی بناپر کسی انسان کودوسروں پر حکومت کرنے کا حق نہیں ہے، او ردوسروں کی سرنوشت پر حاکم نہیں ہیں؟ وہ لوگ یہ بالکل نہیں چاھتے تہے کہ یہ کہیں کہ خدا حق حاکمیت نہیں رکھتا، اس بات کی شاھد وہ بھت سی چیزیں ہیں کہ جن کو قانون اساسی بیان کرتا ہے اور اس بات کو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ معاشرہ میں الھٰی قوانین کا جاری ہونا ضروری ہے، ان اصول کے باوجود کس طرح یہ ممکن ہے کہ کوئی یہ سوچے کہ یہ حاکمیت جو انسانوں کے لئے طے ہے اس سے خدا کی حاکمیت کی نفی کرےں، ! کیا کوئی عقلمند جمہوری اسلامی کے قانون اساسی سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے؟

 

8۔ انسان کی حاکمیت خدا سے نہیں ٹکراتی



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next