قانون گذاری کے شرائط اور اسلام میں اس کی اہمیت



تاکہ ہماری بحث اچہے طریقے سے واضح ہوجائے دوسرے علوم کی مثالیں پیش کرتے ہیں،تاکہ ان باتوں کو اچہی طرح واضح کیا جاسکے، اور شیطانی شبھات اور سوء استفادہ کے لئے کوئی جگہ باقی نہ رہے: ”اعتماد بنفس“ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کو ہماری ملت بلکہ دنیا کے تما م لوگ اس سے اچہے طرح واقف ہیں (کیونکہ یہ عالمی تمدن کا ایک جز بن چکا ہے) اور یہ مسئلہ ”علم نفسیات “ علم سے مربوط ہے کھا یہ جاتا ہے کہ انسان کو اپنے نفس پر اعتماد رکھنا چاھئے، یہ جملہ مکرر سنا جاتا ہے اور کتابوں میں بہی اس کو بھت پڑھا جاتا ہے، اور ریڈیو ،ٹی،وی،میں اس مسئلہ کو بھت بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے خصوصاً تربیتی اور فیملی گفتگو میں، اور کھا جاتا ہے کہ بچوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ اپنے نفس پر اعتماد پیدا کریں، او رجوانوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں کہ اعتماد بنفس پیدا کریں، اسی طرح اخلاقی مسائل میں اس بات پر بھت توجہ دی جاتی ہے کہ لوگوں کو اپنے نفس پر اعتماد رکھنا چاھئے، اور دوسروں بوجہ نہ بنیں، جبکہ اسلام اس کے مقابلہ میں ایک دوسری چیز بیان کرتا ہے جو ”توکل علی اللہ" ہے یعنی خدا پر بھروسہ اور اعتماد کرنا اپنے تمام امور میں یعنی انسان کو خدا کے مقابلہ میں اپنے کو کچھ نہیں سمجھنا چاھئے، اور تمام چیزوں کو اسی سے طلب کرے اور صرف اسی کو سب کچھ مانے۔

(وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللّٰہ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہ إلاَّ ہو وَإِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہ یُصِیْبُ بِہ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہ

وَہو الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ)(4)

”(یادرکہو کہ) اگر خدا کی صرف سے تمہیں کوئی برائی چہو بہی گئی تو پھر اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہیں ہوگا،اور اگرتمھارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل وکرم کا پلٹنے والا بہی کوئی نہیں وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے فائدہ پہونچائے او روہ تو بڑا بخشنے والا مھربان ہے“

نفع ونقصان اس کی طرف سے ہے اور خدا کے مقابلہ میں انسان کا ارادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ، انسان خدا کی عظمت کے مقابلہ میں ایک معمولی چیز ہے، اسلامی اور قرآنی تعلیمات میں اس چیز کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کی اس طرح تربیت ہو کہ اپنے کو خدا کے مقابلہ میں بھت چہوٹا اور ناچیز تصور کرے، اور اسلام میں تربیت اسی بنیاد پر ہوتی ہے کہ انسان اللہ کی ربوبیت اور اپنی عبودیت کا قائل رہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح یہ ممکن ہے کہ ایک طرف سے انسان اپنے نفس پر اعتماد بہی رکہے، اور دوسری طرف خدا کے مقابلہ میں اپنے کو ناچیز بہی سمجہے؟ کیا خود کو خدا کے مقابلہ میں ناچیز سمجھنا ، اعتماد بنفس کے ساتھ ہم آھنگ ہے؟ یہ نظریہ اس اعتراض کی طرح ہے کہ جو حاکمیت کے بارے میں بیان ہوچکاہے، کہ جو سیاسی مسائل سے مربوط ہے، اور یہ شبہ واعتراض علم نفسیات اور اخلاقی تربیت میں بیان ہوتا ہے. ہم نے ان دوچیزوں کا موازنہ کیا ہے، چونکہ یہ دو چیزیں آپس میں مشترک ہیں ان کوسمجھنے کے لئے ذھن تیار ہونا چاھئےے ، عرض کرتے ہیں کہ یہ علم نفسیات کا مسئلہ جو دوسروں پر اعتماد کے مقابلہ میں اپنے نفس پر اعتماد پر تاکید کرتا ہے، اور کھتا ہے کہ بچوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ اپنے ماں باپ اور دوستوں پر تکیہ نہ کرےں، اور دوسروں پر بوجہ نہ بنےں، نہ یہ کہ اپنے کو خدا کا بہی محتاج نہ مانےں۔

انسان کا ایک دوسرے سے رابطہ کے متعلق گفتگواور اسی طرح ”اعتماد بنفس“ کا مسئلہ جس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اپنے کردار کو اتنا مضبوط بنالوکہ کسی دوسرے پر تکیہ نہ کرویہ ایسا مسئلہ ہے کہ اسلام میں بہی اس کی تاکید ہوئی ہے، حضرت رسول اکرم او رائمہ معصومین علیہم السلام کی سیرت میں اس بات پر تاکید ہوئی ہے، لیکن افسوس کہ ان مسائل پر کم توجہ کی گئی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے مسائل مغربی ممالک کی نئی طرز تفکر ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے ائمہ اطھار . ان چیزوں کو پہلے بتا چکے ہیں. آنحضرت کے زمانہ میں آپ کے اصحاب اس طرح کی تربیت سے آراستہ تہے، چنانچہ اگر کوئی گہوڑے پر بیٹھا جارھا ہے اور اس کے ھاتہ سے تازیا نہ گرگیا ہے تو وہ اس دوست سے نہیں کھتے تہے جو اس کے ساتھ چل رھا ہے کہ اس کے تازیانہ کو اٹھاکر دیدو، بلکہ خود گہوڑے سے اتر کر اس کو اٹھالیتے تہے، او رپھر گہوڑے پر سوار ہوجاتے تہے، ! یہ اسلامی تربیت ہے کہ جو ہم سے یہ چاھتا ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، ہم خود اپنا بوجہ سنبھالیں، او رخود کو دوسروں کا محتاج نہ بنائیں، اور دوسروں پر نظریں نہ دوڑائیں ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کے مقابلہ میں بہی اپنے کو بے نیاز سمجہیں:

(یَا اٴَیُّھا النَّاسُ اٴَنْتُمُ الْفُقْرَاءُ إِلَی اللّٰہ وَاللّٰہ ہو الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ) (5)

”لوگو! تم سب کے سب خدا کے(ھروقت)محتاج ہو اور (صرف)خدا ہی (سب سے) بے پروا سزاوار حمد (وثنا) ہے“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 next